جڑانوالہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سنیچر کو جڑانوالہ کا دورہ کیا اور مسیحی برادری پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ بطور مسلمان، پاکستانی اور انسان انھیں ان واقعات سے ’دلی صدمہ پہنچا اور شدید دکھ ہوا‘ ہے۔
متاثرین سے ملاقاتوں کے بعد انھوں نے صحافیوں کے ساتھ اپنا ایک تحریری بیان شیئر کیا۔ اس میں لکھا ہے کہ ’عیسیٰ نگر میں گمراہوں کے ایک بے ہنگم ہجوم نے متعدد گرجا گھر اور مسیحی آبادی کے مکانات جلائے اور برباد کیے۔‘
اس نوٹ میں اسلام کی تاریخ کے مختلف واقعات کی روشنی میں بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں کو مسیحی برادری سے احترام سے پیش آنا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ ان حملوں سے بانی پاکستان محمد علی جناح کی غیر مسلموں کو دی گئی ضمانتوں کی بھی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا ہے کہ ’تعزیرات پاکستان کی دفعات 295 اور 295 اے کے تحت مذہبی مقامات اور علامات کو نقصان پہنچانا جرم ہے اور کسی کے مذہبی جذبات مجروح کرنے پر قید اور جرمانے کی سزائیں ہیں۔‘
نوٹ میں ان کا کہنا ہے کہ ’ہر مسلمان کا یہ دینی فریضہ ہے کہ دو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں، ان کی جانوں، اموال، جائیداد، عزت اور عبادت گاہوں کی حفاظت کریں اور ان پر حملہ کرنے والوں کو روکیں اور ان کو پہنچنے والے نقصان کی ہر ممکن تلافی کریں۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ’ناسمجھی کی انتہا یہ ہے کہ ’اسلام‘ جس کے مفہوم میں امن ہے اور جو اپنے پیروکاروں کو یہ تلقین کرتا ہے کہ لوگوں سے ملتے وقت ان کے لیے سلامتی کی دعا کیا کریں، اس مذہب کے چند ماننے والوں اور خود کو مسلمان کہنے والوں نے اپنے مذہب کی تعلیمات پامال کرتے ہوئے اتنی وحشت اور ظلم کا مظاہرہ کیا۔‘