نیو یارک (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/نیوز ایجنسیاں) انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ‘ہیومن رائٹس واچ’ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں سعودی عرب کے سرحدی محافظوں پر یمن کی سرحد کے پاس بڑے پیمانے پر مہاجرین کو قتل کرنے کا الزام لگایا ہے۔
حقوق انسانی کی معروف تنظیم ‘ہیومن رائٹس واچ کی نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے سینکڑوں افراد، جن میں بیشتر ایتھوپیائی باشندے شامل تھے، جنگ زدہ یمن سے سرحد عبور کر کے سعودی عرب پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے، جنہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
Saudi authorities are spending billions on sports-washing to improve their image.
But out of public view, Saudi border guards have killed at least hundreds of Ethiopian migrants and asylum seekers, including women and children, who tried to cross the Yemen-Saudi border. pic.twitter.com/1XmJavfxWI
— Human Rights Watch (@hrw) August 21, 2023
ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کو چاہیے کہ وہ تارکین وطن اور پناہ کے متلاشیوں کے خلاف ہلاکت خیز طاقت کے استعمال کی کسی بھی پالیسی کو فوری طور پر روک دے۔ تنظیم نے متعلقہ ممالک سے احتساب کے لیے دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے اس کی تحقیقات کرنے کو بھی کہا ہے۔
تاہم سعودی عرب اس سے پہلے منظم قتل کے ایسے الزامات کو مسترد کر چکا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟
ہیومن رائٹس واچ کی یہ تازہ رپورٹ 73 صفحات پر مشتمل ہے، جس کا عنوان ہے، ‘ہم پر بارش کی طرح فائرنگ ہوئی’۔ یہ رپورٹ ان تارکین وطن کی تفصیلی شہادتوں پر مبنی ہے، جو کہتے ہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ یمن کی ناہموار شمالی سرحد پر سعودی پولیس اور فوجیوں نے ان پر فائرنگ کی اور بعض اوقات انہیں دیگر دھماکہ خیز ہتھیاروں سے نشانہ بنایا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی سرحدی محافظوں نے ان سینکڑوں ایتھوپیائی تارکین وطن اور پناہ کے متلاشیوں کو اس وقت ہلاک کیا، جب انہوں نے مارچ سن 2022 اور جون 2023 کے درمیان یمن-سعودی سرحد عبور کرنے کی کوشش کی۔
رپورٹ میں سوال کیا گیا ہے کہ اگر سعودی حکومت کی پالیسی کے تحت تارکین وطن کو قتل کرنے کا ارتکاب کیا گیا، تو یہ ہلاکتیں ”انسانیت کے خلاف جرم کے دائرے میں آتی ہیں۔”
ہیومن رائٹس واچ میں پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے حقوق کی محقق نادیہ ہارڈمین نے اس رپورٹ کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ”سعودی حکام اس دور افتادہ سرحدی علاقے میں باقی دنیا کی نظروں سے دور سیکڑوں تارکین وطن اور پناہ کے متلاشیوں کو قتل کر رہے ہیں۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”سعودی عرب کی شبیہ کو بہتر بنانے کے لیے پیشہ ورانہ گالف، فٹ بال کلبوں اور بڑے تفریحی پروگراموں پر اربوں ڈالر خرچ کیے جار ہے، تاہم ان خوفناک جرائم سے توجہ نہیں ہٹانی چاہیے۔”
رپورٹ میں مزید کیا ہے؟
ہیومن رائٹس واچ نے مارچ 2022 اور جون 2023 کے درمیان یمن-سعودی سرحد کو عبور کرنے کی کوشش کرنے والے 38 ایتھوپیائی تارکین وطن اور سیاسی پناہ کے متلاشیوں سمیت 42 افراد کا انٹرویو کیا اور اس عرصے کے دوران عبور کرنے کی کوشش کرنے والوں کے 4 رشتہ دار یا دوستوں سے بات کی۔
ہیومن رائٹس واچ نے اس کے لیے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی یا دوسرے ذرائع سے حاصل کی گئی 350 سے زیادہ ویڈیوز نیز سیٹلائٹ سے لی گئی کئی سو مربع کلومیٹر کی تصویروں کا بھی جائزہ لیا۔
تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی افراد کا کہنا تھا کہ انہوں نے خلیج عدن کو غیر محفوظ بحری کشتیوں میں سوار ہو کر عبور کیا پھر یمنی اسمگلر انہیں سعودی سرحد پر واقع صعدہ گورنری لے گئے، جو فی الوقت مسلح حوثی گروپ کے زیر کنٹرول ہے۔
بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ حوثی فورسز اسمگلروں کے ساتھ مل کام کرتے ہیں اور ان سے بھتہ بھی وصول کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 200 افراد تک کے گروپوں میں تارکین وطن باقاعدگی سے سرحد عبور کر کے سعودی عرب میں داخل ہونے کی کوشش
کرتے ہیں جبکہ سعودی سرحدی محافظوں نے اکثر بار انہیں پیچھے دھکیلنے کی کوششیں کیں۔
تارکین وطن کا کہنا تھا کہ ان کے گروپوں میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد زیادہ تھی اور سرپرستوں کے بغیر بچے بھی شامل تھے۔ ہیومن رائٹس واچ نے سیٹلائٹ تصاویر سے سعودی عرب کی ان سرحدی محافظ چوکیوں کی بھی نشاندہی کی ہے، جو تارکین وطن کے بیانات سے مطابقت رکھتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے بیان کردہ تمام مناظر خوف کا منظر پیش کرتے ہیں، جس میں پہاڑیوں پر پھیلی خواتین، مردوں اور بچوں کی لاشیں، شدید زخمی، جو پہلے ہی مر چکے ہیں اور بیشتر کے اعضا ٹکڑوں میں ریزہ ریزہ بکھرے پڑے تھے۔
متاثرین میں سے زندہ بچ جانے والے ایک شخص نے بتایا، ”پہلے میں لوگوں کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا اور پھر وہ مر رہے تھے۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے، جن کی آپ شناخت بھی نہیں کر سکتے، کیونکہ ان کی لاشیں ٹکڑوں میں جگہ جگہ بکھری ہوئی تھیں۔ کچھ لوگ تو دو حصوں میں پھٹ گئے تھے۔”