اسلام آباد + پشاور (نمائندہ ڈیلی اردو/ٹی این این) خیبر پختونخوا کی نگران حکومت نے فاٹا ٹریبونل کو دوبارہ بحال کر دیا اور اس حوالے سے محکمہ داخلہ کی جانب سے باقاعدہ ایک اعلامیہ بھی جاری کر دیا ہے۔
اعلامیہ کے بعد پشاور ہائیکورٹ نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری میں مبینہ طور پر امریکہ کی مدد کرنے والے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی سمیت کئی زیر التوء کیسز ٹریبونل کو واپس بھیج دئے ہیں جبکہ اعلامیہ کے مطابق فاٹا ٹریبونل آئندہ تین سال تک ان مخصوص کیسز کی سماعت کرے گی۔
اعلامیہ کے مطابق سینیئر بیورو کریٹ ذاکر حسین آفریدی ٹریبونل کے چئیرمین، کفایت اللہ خان اور خلیل اللہ خلیل اس کے ممبران نامزد کئے گئے ہیں۔
فاٹا ٹریبونل میں کام کرنے والے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق موجودہ فاٹا ٹریبونل چار کیٹیگریز کے مقدمات کی سماعت کرے گی۔ ان میں سر فہرست کیس ڈاکٹر شکیل آفریدی کا ہے، فاٹا ٹریبونل کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کے کیس پر نظرثانی اور اس پر فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے جبکہ اس کے علاوہ دس سے زائد کیسز فاٹا ٹریبونل کے حوالے کئے گئے ہیں۔
باجوڑ سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے سابقہ ممبر شہاب الدین خان کا فاٹا ٹریبونل کی بحالی کے حوالے سے کہنا ہے کہ محکمہ داخلہ نے فاٹا ٹریبونل کو 11 کیسز کے سماعت اور ان پر فیصلے سنانے کے لیے بحال کیا ہے جو کہ تین سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ختم کر دی جائے گی کیونکہ یہ کیسز پہلے ہی سے اس ٹریبونل میں چلے آرہے تھے جبکہ فاٹا ٹریبونل کی مستقل بحالی ایک ناممکن کام ہے کیونکہ پشاور ہائیکورٹ کے مساوی کورٹ کا قیام آئینی لحاظ سے کسی بھی صورت میں ممکن نہیں۔
ان کے بقول 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد ایف سی آر 1901 کو یقینی طور پر منسوخ کر دیا گیا تھا لیکن اس وقت اس قانون کے تحت زیر التوا مقدمات کو اسی پرانے طریقہ کار کے تحت نمٹایا جائے گا جبکہ نئے قانون کے تحت مقدمات کو مقامی عدالتوں میں منتقل کیا جائے گا۔
ان کے مطابق قبائلی عوام کسی صورت دیگر مساوی کورٹ کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں، اب چونکہ قبائلی اضلاع تک عدالتی سسٹم کی توسیع ہوچکی ہے اور قبائلی عوام اس سے مستفید ہو رہی ہے۔
خیال رہے کہ فاٹا انضمام سے پہلے فاٹا ٹریبونل میں سابقہ قبائلی علاقوں کے ایف سی آر (فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن) یا سرحدی جرائم کیلئے مختص جرائم پر فیصلے کیے جاتے تھے تاہم 2018 میں فاٹا انضمام کے بعد یہ ٹریبونل ختم کر دی گئی تھی اور اب 17 جولائی 2023 کو ایک بار پر بحال کر دی گئی ہے۔
ایبٹ آباد میں امریکہ کی فورسز نے دو مئی 2011 کو القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ایک خفیہ آپریشن میں ہلاک کیا تھا جس کے ایک ماہ بعد ڈاکٹر شکیل آفریدی کو جون 2011 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو سنہ 2011 میں پشاور کے علاقے کارخانو مارکیٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ امریکہ کے لیے جاسوسی کرتے تھے اور اس نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں گرفتاری میں امریکہ کی مدد کی تھی۔ لیکن حیران کن طورپر انہیں سزا شدت پسند تنظیم کے ساتھ تعلق رکھنے کے الزام میں دی گئی تھی۔
بعد ازاں انہیں قبائلی علاقوں میں اس وقت رائج فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے تحت 23 مئی 2012 کو مجموعی طور پر 33 سال قید اور 23 لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بظاہر ایک کالعدم شدت پسند تنظیم ’لشکر اسلام‘ سے منسلک جنگجوؤں کا علاج کرنے کے الزام میں سابقہ ایف سی آر قانون کے تحت گرفتار کرکے سزا دی گئی تھی۔ البتہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ان پر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ کی نشاندہی کرنے میں امریکہ کے خفیہ ادارے سے تعاون کا الزام ہے۔ اس مقصد کے لیے ڈاکٹر شکیل آفریدی نے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم کو استعمال کیا تھا۔
شکیل آفریدی کو مئی 2012 میں سزا سنائے جانے کے بعد پشاور جیل میں قید رکھا گیا تھا۔ البتہ انہیں اگست 2018 میں پنجاب کی ساہیوال جیل منتقل کر دیا گیا تھا جہاں وہ اب بھی قید ہیں۔