اسلام آباد (ڈیلی اردو) سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو بیان ریکارڈ کرانے کا حکم دے دیا۔ ٹرائل کورٹ کسی نتیجہ پر نہ پہنچی تو یکم اپریل کو سپریم کورٹ فیصلہ دے گی۔ سپریم کورٹ میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔
عدالت نے فریقین کو مل بیٹھ کر کوئی حل نکالنے کی ہدایت کر دی۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حکم دیا کہ پرویز مشرف خود پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کرائیں اور اگر وہ عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو سکتے تو اسکائپ پر بیان ریکارڈ کرائیں اور اگر اسکائپ پر بھی نہیں کراتے تو ان کے وکیل بیان ریکارڈ کرائیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر ان 3 آپشنز میں سے کسی پر بھی عمل نہ ہوا تو سپریم کورٹ خود فیصلہ کرے گی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اچھا ہے پرویز مشرف کی جگہ ان کے وکیل سلمان صفدر جواب دے دیں۔ پرویز مشرف تو مکے شکے دکھاتے تھے یہ نہ ہو کہ عدالت کو مکے دکھا دیں۔
پرویز مشرف کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یقین کریں گزشتہ سماعت پر مجھے اندازہ تھا کہ پرویز مشرف اسپتال میں داخل ہو جائیں گے۔درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف نے عدالت کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور عدالت کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک ملزم پیش نہیں ہو رہا تو اب کیا ہو سکتا ہے، ایک ملزم جان بوجھ کر پیش نہیں ہوتا تو کیا عدالت بالکل بے بس ہے جب کہ اگر قانون اس صورتحال پر خاموش ہے تو آئین سپریم کورٹ کو اختیار دیتا ہے۔
پرویز مشرف کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف بیرون ملک حکومت کی اجازت سے گئے تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وکیل صاحب حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں جب کہ عدالت کی ترجیح صرف قانون ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے اولیور کرامویل کے مقدمے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اولیور کرامویل نے ایک پارلیمنٹیرین کو باہر پھینک دیا تھا اور انتہائی خراب زبان استعمال کی تھی اور جب وہ اقتدار میں نہ رہا تو پارلیمنٹ نے غداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا اور اسی دوران کرامویل فوت ہو گیا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کرامویل کی موت کے بعد اس کے ڈھانچے کو عدالت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اب سوال پیدا ہوا ڈھانچے سے یہ کیسے پوچھا جائے کہ جرم قبول کرتا ہے یا نہیں۔ پھر فیصلہ ہوا ڈھانچے کی خاموشی سے یہ تاثر لیا جائے کہ ملزم ناٹ گلٹی کہہ رہا ہے۔ جس کے بعد عدالت نے ڈھانجے کو پھانسی پر لٹکا دیا۔وکیل استغاثہ نے کہا کہ عدالت کے سامنے ایک آپشن کمیشن کے قیام کا بھی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیشن سے اجتناب کرنا بہت آسان ہے۔ کمیشن سے پہلے مشرف اسپتال پہنچ جائیں گے اور پھر ڈاکٹرز نے کمیشن کو مشرف سے ملنے بھی نہیں دینا جب کہ اسکائپ کا طریقہ سب سے بہترین ہے۔انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف اسپتال کے بستر سے بھی بیان ریکارڈ کرا سکتے ہیں۔ کیا کسی فریق کو یکم اپریل سے کوئی مسئلہ ہے جب کہ عدالت کو یکم اپریل سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
وکلا نے مؤقف اختیار کیا کہ ہمارے لیے یکم اپریل کو سماعت کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔عدالت نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس کی سماعت یکم اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اگر فریقین متفق ہیں تو ٹرائل کورٹ کو فیصلہ کرنے دیا جائے۔