کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) ’بھائی اور بھتیجے کی بازیابی کا انتظار کرتے کرتے میرے والد اس دنیا سے چلے گئے جبکہ والدہ شب و روز ان کی یاد میں آنسو بہاتے ہوئے گزار رہی ہیں۔‘
یہ کہنا ہے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی خاتون سعیدہ بلوچ کا جن کے بھائی اور بھتیجا 2021 سے لاپتہ ہیں۔
بی بی سی سے بات چیت کے دوران بھائی ظہور احمد اور بھتیجے سجاد علی کی جبری گمشدگی کے باعث ان کا خاندان جس اذیت سے گزر رہا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے سعیدہ بلوچ کی کئی مرتبہ ہچکیاں بندھ گئیں۔
’اگر کسی کی بلی گم ہو جائے تو وہ اس کی یاد میں غمگین رہتا ہے۔ ہمارے گھر سے دو جیتے جاگتے انسان غائب کیے گئے ہیں۔ ایسے میں بھلا کون خوش رہ سکتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’عید اور خوشیاں کیا ہوتی ہیں وہ اب ہم بھول گئے ہیں۔ اگر ہم خاندان والے کبھی اکٹھے بھی ہوتے ہیں تو بھائی اور بھتیجے کی جبری گمشدگی کے غم میں آنسوؤں کے ساتھ جدا ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے اپنے بھائی اور بھتیجے کی جبری گمشدگی کا الزام ریاستی اداروں پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ دونوں کو ان اداروں کے اہلکاروں نے اٹھایا تھا۔
بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز (وی بی ایم پی) کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان سمیت پاکستان کے دیگر علاقوں سے سنہ 2000 کے بعد سے ریاستی اداروں نے ہزاروں بلوچوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا تاہم ریاستی ادارے لاپتہ افراد کے مسئلے کو ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف ایک بے بنیاد پروپیگنڈا قرار دیتے ہیں۔
نگران وفاقی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔
ظہور احمد اور سجاد علی کون ہیں؟
ظہور احمد اور سجاد علی کوئٹہ شہر کے رہائشی ہیں۔ ظہور احمد سرکاری ملازم ہیں اور وہ کوئٹہ میں اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کے سکول میں فزیکل انسٹرکٹر تھے۔
سجاد علی جھالاوان لا کالج خضدار میں ایل ایل بی کے فائنل ایئر کے طالب علم تھے۔ سجاد علی شادی شدہ ہیں اور ان کا ایک کمسن بیٹا ہے۔
سعیدہ بلوچ نے بتایا کہ ان کے بھائی ظہور احمد کو کوئٹہ کی سمگلی روڈ پر واقع کڈنی سینٹر کے قریب سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ظہور احمد کو 31 مئی 2021 کی شام کو جب لاپتہ کیا گیا تو ان کے ساتھ ایک اور ملازم بھی تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’جب ان کے بھائی اس علاقے سے گزر رہے تھے تو ایک سلور رنگ کی گاڑی نے ان کا راستہ روکا، جس سے اترنے والے نقاب پوش افراد نے میرے بھائی اور ان کے ساتھ دوسرے ملازم کے نام پوچھے اور میرے بھائی کی شناخت کے بعد انھیں گاڑی میں اپنے ساتھ لے کر سرپل کی جانب روانہ ہو گئے تھے۔‘
سعیدہ بلوچ بتاتی ہے کہ ان کے بھائی کی جبری گمشدگی کے بعد پہلی عید کے موقع پر ان کے بھتیجے سجاد کو بھی گھر سے آ کر لے جایا گیا تھا۔
’25 جولائی 2021 کی شب کالی وردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس 20 کے قریب مسلح افراد ہمارے گھر آئے اور سجاد علی کو گھر سے تمام افراد کے سامنے اپنے ساتھ لے گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دونوں کی جبری گمشدگی کے بعد سے ہمیں ان کے بارے میں کچھ پتا نہیں کہ ان کو کہاں رکھا گیا ہے اور وہ کس حال میں ہیں۔
سعیدہ بلوچ نے بتایا کہ انھوں نے نہ صرف دونوں کی جبری گمشدگی کے خلاف بلوچستان ہائیکورٹ میں آئینی درخواست دائر کر رکھی ہے بلکہ بلوچستان کے لاپتہ افراد کے کمیشن میں بھی ان کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ حکومتی کمیشن کی جانب سے ان لوگوں کو کلیئرینس کی ایک چٹ دی جاتی ہے جن کے خلاف کوئی الزام نہ ہو اسی طرح کی چٹ ہمیں بھی دی گئی لیکن اس کے باوجود میرے بھائی اور بھتیجے کی بازیابی عمل میں نہیں آئی۔
’پیاروں کی گمشدگی کا غم اتنا کہ اب ہمیں خوشی یاد نہیں‘
سعیدہ بلوچ کا کہنا ہے کہ اگر کسی کے پیارے جیتے جی گم ہو جائیں تو یہ بہت اذیت ناک ہوتا ہے اور اس کا دکھ اور تکلیف اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ آپ خوش ہونا بھول جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد کو بیٹے اور پوتے کی غم میں دل کا دورہ پڑا اور انھوں نے اپنی زندگی کے آخری لممحے ان کے انتظار میں گزارے جبکہ بوڑھی والدہ کی آنکھیں ہرقت ان کی یاد میں نم رہتی ہیں۔
’دونوں کی جبری گمشدگی کے بعد میں ان کے لیے ہر عید پر اس امید کے ساتھ نئے کپڑے اور جوتے خریدتی ہوں کہ اگر وہ بازیاب ہو کر آ جائیں تو وہ نئے کپڑوں کے بغیر نہ رہیں۔‘
’میں 19سال سے جبری گمشدہ والد کے انتظار میں ہوں‘
سعیدہ بلوچ نے بتایا کہ جبری گمشدگی صرف اس فرد کو سزا دینے کا عمل نہیں، جس کو لاپتہ کیا گیا ہو بلکہ یہ ایک اجتماعی سزا ہے کیونکہ اس سے ان لوگوں کے خاندان کے تمام افراد ایک اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کے لیے قانون اور عدالتیں ہیں اس لیے اگر جبری گمشدگی کے شکار لوگوں پر کوئی الزام ہے تو ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے نہ کہ انھیں لاپتہ کیا جائے۔
خاندان کے دو افراد کی مبینہ جبری گمشدگی کے باعث صرف سعیدہ بلوچ کا خاندان ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار نہیں ہے بلکہ وائس فار بلوچ مسنگ کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ کے مطابق ہزاروں بلوچ خاندان اس اذیت سے گزر رہے ہیں۔
ان ہی میں غلام فاروق بنگلزئی کا خاندان بھی شامل ہے جن کے والد علی اصغر بنگلزئی 2001 سے لاپتہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرے والد کو ان کے ایک دوست کے ساتھ سریاب روڈ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ ان کے دوست کو کچھ دن بعد چھوڑ دیا گیا لیکن میرے والد 22 سال سے زائد عرصے سے لاپتہ ہیں۔‘
غلام فاروق کہتے ہیں کہ ’ہم آٹھ بہن بھائی ہیں جن میں سے تین بھائیوں اور دو بہنوں کی شادیاں ہوئیں لیکن ہم اپنی شادیوں پر والد کی دست شفقت سے محروم رہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میری عمر اس وقت 41 سال ہے۔ میں والدین کا سب سے بڑا بیٹا ہوں۔ جب میرے والد کو لاپتہ کیا گیا تو اس وقت میری عمر 17-18 سال کے لگ بھگ تھی۔ میں 19سال سے والد کے انتظار میں ہوں۔‘
غلام فاروق نے بتایا کہ والد کی جبری گمشدگی کے بعد ہم نے کوئی خوشی نہیں منائی۔
’عید ہو یا خوشی کا کوئی اور موقع آپ یقین کریں ہم خوش ہونے کی بجائے زیادہ غمگین ہوتے ہیں کیونکہ جب والد کی یاد آتی ہے اور پھر یہ خیال آتا ہے کہ والد کس حال میں ہوں گے تو پھر خوشی بھی غم میں بدل جاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 22 سال ایک بہت بڑا عرصہ ہے لیکن ہم اب بھی پرامید ہیں کہ ہمارے والد واپس آئیں گے اور ہم ان کے انتظار میں ہیں۔‘
بلوچستان میں لاپتہ افراد کا نیا مسئلہ کب شروع ہوا؟
بلوچستان میں قوم پرست تنظیموں کا کہنا ہے کہ 70 کی دہائی میں ہونے والی شورش کے دوران بھی لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، جن میں بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے بڑے بھائی اسد اللہ مینگل اور ان کے ساتھی احمد شاہ بھی شامل تھے تاہم بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر لوگوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں حالات کی خرابی کے ساتھ شروع ہوا۔
وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ گذشتہ دو دہائیوں سے ہزاروں افراد کو لاپتہ کیا گیا تاہم تنظیم نے مکمل کوائف کے ساتھ جن لوگوں کی فہرست بنا کر حکومت کو دی ان کی تعداد چھ ہزار سے زائد ہے۔
خیال رہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے حکومت سازی کے حوالے سے تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا ان میں سے ایک شق لاپتہ افراد کی بازیابی کا تھا۔
نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ تنظیم نے حکومت کو جو فہرست دی تھی وہی فہرست حکومتی کمیشن کو بھی دی گئی جس میں شامل لاپتہ افراد کے کیسز کا روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2018 اور 2019 میں تنظیم کی جانب سے بلوچستان حکومت کے ساتھ جو معاہدہ ہوا اس کے بعد سے 1260کے قریب لوگ بازیاب ہوئے ہیں۔
’بازیاب ہونے والوں میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جو گذشتہ نو، دس اور 14برس سے لاپتہ تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور ان کے دعوے کے مطابق رواں سال اب تک تنظیم کے ساتھ جن لوگوں کی گمشدگی کے کیسز رجسٹر ہوئے ان کی تعداد 203 ہے جن میں سے 55 طالب علم ہیں۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اہلکار لاپتہ افراد کے مسئلے کو کمزور کرنے کے لیے بے بنیاد الزام لگاتے رہتے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے بتایا کہ پولیس اہلکار لاپتہ افراد کے مقدمات کو درج نہیں کرتے ہیں جبکہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لواحقین کے جو پرامن مظاہرے ہوتے ہیں ان کی راہ میں بھی رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔
لاپتہ افراد کے حوالے سے حکومت کا کیا موقف ہے؟
بلوچستان سے لوگوں کی جبری گمشدگی کے حوالے سے نگراں وفاقی وزیر برائے داخلہ امور میر سرفراز بگٹی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لاپتہ افراد کا معاملہ بڑا پیچیدہ معاملہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ ایک فرد بھی جبری طور پر لاپتہ ہو تو اس کا بھی جواز نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگوں کے خود غائب ہونے کے بہت سارے کیسز ہیں۔ لاپتہ افراد کی تعداد کے حوالے سے جو دعوے کیے جا رہے ہیں یہ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی جبری گمشدگی کی جو تعریف ہے اور اس حوالے سے جو معیار مقرر ہے اس پر بہت کم لوگ پورا اترتے ہیں۔
نگراں وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ’پھر ایک تنازع بھی ہے، ہم جانتے ہیں کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو مسلح تنظیموں کا حصہ ہیں۔ حال ہی میں ایک حملہ ہوا تھا جن میں سے ایک شخص کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں تھا لیکن وہ تو حملہ آور نکلا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اگر لاپتہ افراد کا مسئلہ مسقتل طور پر حل کرنا ہے تو ہمیں عدالتی اصلاحات لانی پڑیں گے اور اپنے قوانین کو موثر بنانا ہو گا تب ہی لوگوں کو سزائیں دلائی جاسکیں گی ورنہ مشکل ہے۔‘
’مسنگ پرسنز کا معاملہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے‘
جب مارچ 2022 میں لاپتہ افراد سے متعلق ایک سٹوری کے حوالے سے سکیورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر اہلکار سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا تھا کہ ’لاپتہ افراد کا معاملہ بنیادی طور پرایک سوچی سمجھی سازش ہے، جس کے تحت دشمن پاکستان کو بدنام کرنے اور عوام کو حکومتی اداروں کے خلاف کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
اہلکار نے بتایا کہ حکومت کے قائم کردہ کمیشن کے مطابق لاپتہ افراد کے 8381 کیسز رپورٹ کیے گئے، جن میں سے 6163 کیسز عدالتی تحقیقات کے بعد ختم کر دیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیشن روزانہ کی بنیاد پر ان مقدمات کی سماعت کرتا ہے اور تحقیقات کے مطابق زیادہ تر افراد کو دہشت گرد تنظیمں اغوا کر کے قتل کر دیتی ہیں۔
سینیئر اہلکار نے بتایا اس کے علاوہ بہت سے لوگ دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان کے گھر والوں کو خبر بھی نہیں ہوتی۔
اہلکار نے بتایا تھا کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف چند لوگوں کو امن و امان قائم رکھنے کے لیے گرفتار کرتے ہیں، جن کو تفتیش کے بعد بے قصور ہونے کی صورت میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان دشمن عناصر دہشت گرد تنظیموں کو استعمال کر کے لوگوں کو اغوا اور قتل کروایا جاتا ہیں اور جب ملکی ایجنسیاں ایسے دہشتگرد گروہوں کے خلاف ایکشن لیتی ہیں تو ایک سوچی سمجھی چال کے مطابق الزام پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لگایا جاتا ہے لیکن حکومت جلد اپنے باشعور اور بہادر عوام کے ساتھ سے ان سازشوں کو ناکام بنائے گی۔‘
وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ جہاں سنہ 2000 سے لوگوں کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہوا وہاں 2008 کے بعد سے ان کی تشدد زدہ لاشیں بھی برآمد ہوئیں۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان میں سے متعدد لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی۔ وی بی ایم نے دعویٰ کیا کہ لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ اور دو لانگ مارچ
بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کا سلسلہ تو جبری گمشدگیوں کے واقعات کے ساتھ شروع ہو گیا تھا تاہم جب وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر کے بڑے بیٹے جلیل ریکی کو لاپتہ کیا گیا تو اس کے بعد کوئٹہ میں ایک باقاعدہ علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کیا گیا۔
اگرچہ ماما قدیر کے بیٹے کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی لیکن علامتی بھوک ہڑتال کیمپ کو جاری رکھا گیا جسے اب تک 5154 دن ہو گئے ہیں۔
ماما قدیر کے مطابق بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ جدید دنیا کی طویل ترین بھوک ہڑتالی کیمپوں میں سے ایک ہے۔
اس کیمپ کو سردیوں میں کراچی منتقل کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے طویل لانگ مارچ بھی کیے گئے۔ ان میں سے ایک پیدل لانگ مارچ سنہ 2013 میں ماما قدیر کی قیادت میں پہلے کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک کیا گیا۔
جبکہ دوسرا پیدل لانگ مارچ گلزار دوست بلوچ نے گذشتہ سال مارچ میں ایران سے متصل بلوچستان کے سرحدی ضلع کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت سے کوئٹہ تک کیا، جس کا فاصلہ 776 کلومیٹر بنتا ہے۔ ہمیں خوشی یاد نہیں‘
سعیدہ بلوچ کا کہنا ہے کہ اگر کسی کے پیارے جیتے جی گم ہو جائیں تو یہ بہت اذیت ناک ہوتا ہے اور اس کا دکھ اور تکلیف اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ آپ خوش ہونا بھول جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد کو بیٹے اور پوتے کی غم میں دل کا دورہ پڑا اور انھوں نے اپنی زندگی کے آخری لممحے ان کے انتظار میں گزارے جبکہ بوڑھی والدہ کی آنکھیں ہرقت ان کی یاد میں نم رہتی ہیں۔
’دونوں کی جبری گمشدگی کے بعد میں ان کے لیے ہر عید پر اس امید کے ساتھ نئے کپڑے اور جوتے خریدتی ہوں کہ اگر وہ بازیاب ہو کر آ جائیں تو وہ نئے کپڑوں کے بغیر نہ رہیں۔‘
’میں 19سال سے جبری گمشدہ والد کے انتظار میں ہوں‘
سعیدہ بلوچ نے بتایا کہ جبری گمشدگی صرف اس فرد کو سزا دینے کا عمل نہیں، جس کو لاپتہ کیا گیا ہو بلکہ یہ ایک اجتماعی سزا ہے کیونکہ اس سے ان لوگوں کے خاندان کے تمام افراد ایک اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کے لیے قانون اور عدالتیں ہیں اس لیے اگر جبری گمشدگی کے شکار لوگوں پر کوئی الزام ہے تو ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے نہ کہ انھیں لاپتہ کیا جائے۔
خاندان کے دو افراد کی مبینہ جبری گمشدگی کے باعث صرف سعیدہ بلوچ کا خاندان ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار نہیں ہے بلکہ وائس فار بلوچ مسنگ کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ کے مطابق ہزاروں بلوچ خاندان اس اذیت سے گزر رہے ہیں۔
ان ہی میں غلام فاروق بنگلزئی کا خاندان بھی شامل ہے جن کے والد علی اصغر بنگلزئی 2001 سے لاپتہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرے والد کو ان کے ایک دوست کے ساتھ سریاب روڈ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ ان کے دوست کو کچھ دن بعد چھوڑ دیا گیا لیکن میرے والد 22 سال سے زائد عرصے سے لاپتہ ہیں۔‘
غلام فاروق کہتے ہیں کہ ’ہم آٹھ بہن بھائی ہیں جن میں سے تین بھائیوں اور دو بہنوں کی شادیاں ہوئیں لیکن ہم اپنی شادیوں پر والد کی دست شفقت سے محروم رہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میری عمر اس وقت 41 سال ہے۔ میں والدین کا سب سے بڑا بیٹا ہوں۔ جب میرے والد کو لاپتہ کیا گیا تو اس وقت میری عمر 17-18 سال کے لگ بھگ تھی۔ میں 19سال سے والد کے انتظار میں ہوں۔‘
غلام فاروق نے بتایا کہ والد کی جبری گمشدگی کے بعد ہم نے کوئی خوشی نہیں منائی۔
’عید ہو یا خوشی کا کوئی اور موقع آپ یقین کریں ہم خوش ہونے کی بجائے زیادہ غمگین ہوتے ہیں کیونکہ جب والد کی یاد آتی ہے اور پھر یہ خیال آتا ہے کہ والد کس حال میں ہوں گے تو پھر خوشی بھی غم میں بدل جاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 22 سال ایک بہت بڑا عرصہ ہے لیکن ہم اب بھی پرامید ہیں کہ ہمارے والد واپس آئیں گے اور ہم ان کے انتظار میں ہیں۔‘
بلوچستان میں لاپتہ افراد کا نیا مسئلہ کب شروع ہوا؟
بلوچستان میں قوم پرست تنظیموں کا کہنا ہے کہ 70 کی دہائی میں ہونے والی شورش کے دوران بھی لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، جن میں بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے بڑے بھائی اسد اللہ مینگل اور ان کے ساتھی احمد شاہ بھی شامل تھے تاہم بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر لوگوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں حالات کی خرابی کے ساتھ شروع ہوا۔
وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ گذشتہ دو دہائیوں سے ہزاروں افراد کو لاپتہ کیا گیا تاہم تنظیم نے مکمل کوائف کے ساتھ جن لوگوں کی فہرست بنا کر حکومت کو دی ان کی تعداد چھ ہزار سے زائد ہے۔
خیال رہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے حکومت سازی کے حوالے سے تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا ان میں سے ایک شق لاپتہ افراد کی بازیابی کا تھا۔
نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ تنظیم نے حکومت کو جو فہرست دی تھی وہی فہرست حکومتی کمیشن کو بھی دی گئی جس میں شامل لاپتہ افراد کے کیسز کا روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2018 اور 2019 میں تنظیم کی جانب سے بلوچستان حکومت کے ساتھ جو معاہدہ ہوا اس کے بعد سے 1260کے قریب لوگ بازیاب ہوئے ہیں۔
’بازیاب ہونے والوں میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جو گذشتہ نو، دس اور 14برس سے لاپتہ تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور ان کے دعوے کے مطابق رواں سال اب تک تنظیم کے ساتھ جن لوگوں کی گمشدگی کے کیسز رجسٹر ہوئے ان کی تعداد 203 ہے جن میں سے 55 طالب علم ہیں۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اہلکار لاپتہ افراد کے مسئلے کو کمزور کرنے کے لیے بے بنیاد الزام لگاتے رہتے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے بتایا کہ پولیس اہلکار لاپتہ افراد کے مقدمات کو درج نہیں کرتے ہیں جبکہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لواحقین کے جو پرامن مظاہرے ہوتے ہیں ان کی راہ میں بھی رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔
لاپتہ افراد کے حوالے سے حکومت کا کیا موقف ہے؟
بلوچستان سے لوگوں کی جبری گمشدگی کے حوالے سے نگراں وفاقی وزیر برائے داخلہ امور میر سرفراز بگٹی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لاپتہ افراد کا معاملہ بڑا پیچیدہ معاملہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ ایک فرد بھی جبری طور پر لاپتہ ہو تو اس کا بھی جواز نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگوں کے خود غائب ہونے کے بہت سارے کیسز ہیں۔ لاپتہ افراد کی تعداد کے حوالے سے جو دعوے کیے جا رہے ہیں یہ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی جبری گمشدگی کی جو تعریف ہے اور اس حوالے سے جو معیار مقرر ہے اس پر بہت کم لوگ پورا اترتے ہیں۔
نگراں وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ’پھر ایک تنازع بھی ہے، ہم جانتے ہیں کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو مسلح تنظیموں کا حصہ ہیں۔ حال ہی میں ایک حملہ ہوا تھا جن میں سے ایک شخص کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں تھا لیکن وہ تو حملہ آور نکلا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اگر لاپتہ افراد کا مسئلہ مسقتل طور پر حل کرنا ہے تو ہمیں عدالتی اصلاحات لانی پڑیں گے اور اپنے قوانین کو موثر بنانا ہو گا تب ہی لوگوں کو سزائیں دلائی جاسکیں گی ورنہ مشکل ہے۔‘
’مسنگ پرسنز کا معاملہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے‘
جب مارچ 2022 میں لاپتہ افراد سے متعلق ایک سٹوری کے حوالے سے سکیورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر اہلکار سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا تھا کہ ’لاپتہ افراد کا معاملہ بنیادی طور پرایک سوچی سمجھی سازش ہے، جس کے تحت دشمن پاکستان کو بدنام کرنے اور عوام کو حکومتی اداروں کے خلاف کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
اہلکار نے بتایا کہ حکومت کے قائم کردہ کمیشن کے مطابق لاپتہ افراد کے 8381 کیسز رپورٹ کیے گئے، جن میں سے 6163 کیسز عدالتی تحقیقات کے بعد ختم کر دیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ کمیشن روزانہ کی بنیاد پر ان مقدمات کی سماعت کرتا ہے اور تحقیقات کے مطابق زیادہ تر افراد کو دہشت گرد تنظیمں اغوا کر کے قتل کر دیتی ہیں۔
سینیئر اہلکار نے بتایا اس کے علاوہ بہت سے لوگ دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان کے گھر والوں کو خبر بھی نہیں ہوتی۔
اہلکار نے بتایا تھا کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف چند لوگوں کو امن و امان قائم رکھنے کے لیے گرفتار کرتے ہیں، جن کو تفتیش کے بعد بے قصور ہونے کی صورت میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان دشمن عناصر دہشت گرد تنظیموں کو استعمال کر کے لوگوں کو اغوا اور قتل کروایا جاتا ہیں اور جب ملکی ایجنسیاں ایسے دہشتگرد گروہوں کے خلاف ایکشن لیتی ہیں تو ایک سوچی سمجھی چال کے مطابق الزام پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لگایا جاتا ہے لیکن حکومت جلد اپنے باشعور اور بہادر عوام کے ساتھ سے ان سازشوں کو ناکام بنائے گی۔‘
وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ جہاں سنہ 2000 سے لوگوں کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہوا وہاں 2008 کے بعد سے ان کی تشدد زدہ لاشیں بھی برآمد ہوئیں۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان میں سے متعدد لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی۔ وی بی ایم نے دعویٰ کیا کہ لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ اور دو لانگ مارچ
بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کا سلسلہ تو جبری گمشدگیوں کے واقعات کے ساتھ شروع ہو گیا تھا تاہم جب وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر کے بڑے بیٹے جلیل ریکی کو لاپتہ کیا گیا تو اس کے بعد کوئٹہ میں ایک باقاعدہ علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کیا گیا۔
اگرچہ ماما قدیر کے بیٹے کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی لیکن علامتی بھوک ہڑتال کیمپ کو جاری رکھا گیا جسے اب تک 5154 دن ہو گئے ہیں۔
ماما قدیر کے مطابق بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ جدید دنیا کی طویل ترین بھوک ہڑتالی کیمپوں میں سے ایک ہے۔
اس کیمپ کو سردیوں میں کراچی منتقل کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے طویل لانگ مارچ بھی کیے گئے۔ ان میں سے ایک پیدل لانگ مارچ سنہ 2013 میں ماما قدیر کی قیادت میں پہلے کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک کیا گیا۔
جبکہ دوسرا پیدل لانگ مارچ گلزار دوست بلوچ نے گذشتہ سال مارچ میں ایران سے متصل بلوچستان کے سرحدی ضلع کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت سے کوئٹہ تک کیا، جس کا فاصلہ 776 کلومیٹر بنتا ہے۔