اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو ) تیس اگست کو دنیا بھر میں جبری گمشدگیوں کے متاثرین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کو درپیش سنگین ترین چیلنجز میں سے ایک لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے۔ کمیشن اور کمیٹیاں بنیں مگر ماؤں کے جگر گوشے نہ لوٹ سکے۔
فاؤنڈیشن فار فنڈامنٹل رائٹس اور ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی رواں برس شائع ہونے والی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اگرچہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کی تاریخ ستر کی دہائی سے شروع ہوتی ہے لیکن سال 2000 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ سے اس میں تیزی آئی اور یہ سلسلہ بدستور آج بھی قائم ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا کہ اب جبری گمشدگیوں کا دائرہ زیادہ وسیع ہو رہا ہے اور پنجاب میں بھی ایسے واقعات رونما ہونے لگے ہیں۔
ڈیفنس آف ہیومن رائٹس پاکستان کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب لاپتہ افراد کمیشن قائم کیا گیا تھا تب ایسے مقدمات 150 سے کم تھے اور اب یہ تعداد دس ہزار کو چھو رہی ہے، ”گزشتہ برس کی نسبت رواں برس کی اوسط زیادہ ہے، اب پنجاب بھی زد میں ہے، سیاسی کارکنوں پر دست درازی سرعام اور دیدہ دلیری سے ہو رہی ہے۔”
’بلوچ عوامی نمائندوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا‘
سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے بقول ”ایسا لگتا ہے جبری گمشدگیوں کے معاملے میں سب بے بس ہیں، کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔” ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کہتے ہیں کہ لاپتہ افراد کے سب سے زیادہ کیسز بلوچستان سے ہیں مگر کمیشن بناتے ہوئے بلوچ عوامی نمائندوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا، ”اگر کوئی ایسا قدم اٹھانا ہی ہے تو نیک نیتی ظاہر کی جائے اور اعتماد میں لیا جائے۔ اگر ایسا ہی غیر مؤثر کمیشن قائم کرنا ہے تو فائدہ نہیں۔”
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر کہتے ہیں، ”کمیشن بھی انہی کا ہے، جو ملوث ہیں۔ کمیشن بس دکھاوا ہے۔ ریاست کی طرف سے رسمی کارروائی کو دیکھیں ایک فورم ہے، جہاں سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اس سے کوئی توقع نہیں۔ اس نے تیرہ برس میں ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔‘‘
جبری گمشدگیوں کی تاریخ اور بڑھتے واقعات
خیال رہے لاپتہ افراد کمیشن کی طرف سے اگست میں سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی ماہانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ کے دوران مزید 157 افراد لاپتہ ہوئے، جس کے بعد ان کی مجموعی تعداد 9736 سے بڑھ کر 9893 ہو گئی ہے۔ کمیشن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال سن 2022 میں ملک بھر سے لاپتہ افراد کے 860 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سب سے زیادہ تعداد اکتوبر کے مہینے میں 128 کیسز تھے۔ جبکہ رواں برس جولائی میں یہ تعداد 157 تک پہنچ چکی ہے۔
ملوث افراد کے خلاف مقدمات قائم کیوں نہیں ہوئے؟
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ کے قانونی اور پالیسی ڈائریکٹر ایان سیڈرمین نے کمیشن کی توسیع میں مخالفت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ کمیشن اپنے قیام کے 9 سالوں میں جبری گمشدگی میں ملوث ایک بھی شخص کو ذمہ دار ٹھہرانے میں ناکام رہا ہے، ”ایسا کمیشن جو ذمہ داروں کی نشاندہی نہیں کرتا اور نہ ہی متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے لیے انصاف کی سہولت فراہم کرتا ہے، کو یقینی طور پر مؤثر نہیں سمجھا جا سکتا۔”
آمنہ مسعود جنجوعہ کہتی ہیں کہ کمیشن کو اختیار حاصل ہے کہ جبری گمشدگیوں میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات قائم کرے مگر ایسا نہیں ہوا، ”سینٹ کمیٹی میں ایسے 153 افراد کے نام بھی پیش کیے مگر ان کے خلاف کسی طرح کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی نہ ایسی سفارشات مرتب کی گئیں۔”
وہ مزید کہتی ہیں، ”کمیشن کا انتہائی بنیادی مقصد گمشدہ افراد کی بازیابی ہے مگر اس میں بھی یہ ناکام ہوا۔ یہ پروڈکشن آڈر جاری کرتا ہے کہ چھ ہفتے میں بندہ پیش کیا جائے مگر کمیشن کی طرف سے کوئی فالو اپ نہیں ہوتا کہ پروڈکشن آڈر پر عملدرآمد ہوا کہ نہیں۔ شہری بازیاب ہو یا نہ ہو کمیشن کی طرف سے وہ کیس نمٹائے گئے مقدمات کی فہرست میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہ محض خانہ پری ہے۔”
ٹرتھ اینڈ ری کنسلیشن کمیشن تشکیل دیا جائے
جبری گمشدگیوںکے مقدمات میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے معاون وکیل اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے 2013 میں قائم ہونے والی ٹاسک فورس کے رکن فیصل صدیقی نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ لاپتہ افراد کمیشن سزا نہیں دے سکتا کیونکہ یہ محض کمیشن ہے، یہ محض اپنی سفارشات پیش کر سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جبری گمشدگیوں میں ملوث افراد کے خلاف اغوا کی دفعات لگتی ہیں جس کی سزا عمر قید ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر کیسے کٹے گی ،”ایف آئی آر کے لیے ضروری ہے ریاست یا کوئی شہری اندراج مقدمہ کے لیے درخواست دے۔ پھر اسے متعلقہ افراد کے متعلق مزید معلومات فراہم کرنا ہوں گی۔ اب آپ خود سوچیں ایک عام متاثرہ شہرى ریاست کے طاقتور ترین اداروں کے خلاف ایسا قدم اٹھا سکتا ہے۔ وہ تو پہلے ہی انتہائی خوفزدہ اور بے بس ہوتا ہے کیا وہ عدالت میں گواہی دے سکتا ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ 2009ء سے 2013ء تک سپریم کورٹ انتہائی طاقتور اور لاپتہ افراد کے معاملے میں بہت فعال تھی مگر متعلقہ اداروں کے ملوث افسران میں سے کسی ایک کو بھی سزا نہ دے سکی۔ ان کے بقول مقدمات قائم کرنے کی بات غیر حقیقی ہے۔ بس معافی تلافی ہو اور کسی طرح لاپتہ افراد کی بازیابی ممکن بنائی جائے، ”اس لیے ہم نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے 2013ء میں قائم ہونے والی وفاقی ٹاسک فورس کی طرف سے سفارش کی تھی کہ ایک ٹرتھ اینڈ ری کنسلیشن کمیشن قائم کیا جائے۔ مگر وہ سفارشات نظر انداز کر دی گئیں۔”
لاپتہ افراد کمیشن اور اس کی ناکامی
جبری گمشدگیوں کے معاملے کی چھان بین کے لیے پاکستان میں پہلا کمیشن 2010 ء میں جسٹس ریٹائرڈ کمال منصور عالم کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا، جس کے دیگر دو ارکان جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال اور جسٹس ریٹائرڈ فضل الرحمان تھے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی جو آج تک منظر عام پر نہ آ سکی۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے دوسرے کمیشن کو انکوائری ایکٹ سن 1956 کے تحت 2011ء میں تشکیل دیا گیا، جسے بعد میں اس وقت کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے دور میں اسے کمیشن آف انکوائری ایکٹ سن2017 کا نام دیا گیا تھا۔
2020ء میں اس کمیشن کی مدت ختم ہونے والی تھی مگر اسے تین سال کے لیے توسیع دی گئی۔ اس توسیع کی انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ نے اس کے سربراہ کی تعیناتی، اس کے محدود دائرہ کار اور ناقص کارکردگی کی بنا پر مخالفت کی تھی۔
رواں برس جون میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جبری گمشدگی کے ایک مقدمے میں ریمارکس دیتے ہوئے تھا کہ بادی النظر میں کمیشن اپنی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام رہا، ”کمیشن کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وضاحت کرے کیوں مؤثر اور قابل ذکر ایکشن نظر نہیں آ رہا؟ ایک دہائی قبل تشکیل دیے گئے کمیشن نے جبری گمشدگی خاتمے کے لیے وفاقی حکومت کو تجاویز کیوں نہیں دیں؟”