پیرس (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے) فرانسیسی عہدیدار کے مطابق پیر کے روز پانچ ایسی خواتین فرانس پہنچ گئیں جنہوں نے طالبان کے خوف سے بارہا فرانس آنے کی درخواست کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ فرانس انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایسا راستہ فراہم کرے کہ جو خواتین عام زندگی میں پابندیوں کا شکار ہیں وہ افغانستان سے نکل سکیں۔
اگست 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان حکام نے خواتین پر بہت طرح کی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ افغانستان میں خواتین کی تعلیم، گھر سے باہر ملازمتوں، پارکوں، جمنیزیم میں جانے اور بغیر محرم کے سفر کرنے پر پابندی کے احکامات نے افغان خواتین کے لیے ہر طرح کے مواقعے تقریباً ختم کر دیے ہیں۔
ان پر اقوامِ متحدہ کے اداروں اور دیگر غیر سرکاری تنظیمو٘ ں کے ساتھ کام کرنے پر بھی پابندی ہے اور ہزاروں خواتین کو سرکاری ملازمتوں سے نکال دیا گیا ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ افغان خواتین اپنا وطن چھوڑ کر دیگر ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
فرانس میں امیگریشن اتھارٹی کے سربراہ ددئیے لیشی نے بتایا ہے کہ ایک صدارتی حکم کے تحت ایسی خواتین پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے جنہیں افغان معاشرے میں اہم حیثیت رکھنے یا مغرب کے ساتھ رابطوں کے باعث طالبان سے خطرات لاحق ہیں۔
لیشی نے بتایا،” آج پہنچنے والی یہ پانچ خواتین انہیں میں سے ہیں۔”
ان میں ایک یونیورسٹی کی سابق ڈائریکٹر ہیں، ایک کسی این جی اوز کی سابق کنسلٹینٹ، ٹی وی کی ایک سابق میزبان اور ایک کابل کے ایک خفیہ اسکول کی ٹیچر ہیں۔
ایک خاتون کے ہمراہ تین بچے بھی ہیں۔
یہ خواتین 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد ان لوگوں میں شامل نہیں ہو سکی تھیں جنہیں طیاروں کے ذریعے افغانستان سے نکالا جا رہا تھا۔
تب وہ بھاگ کر پاکستان چلی گئی تھیں جہاں انہیں عارضی پناہ دے دی گئی تھی۔
لیشی نے بتایا کہ فرانسیسی حکام نے انہیں وہاں سے نکالنے کے انتظامات کیے۔
فرانس پہنچنے کے بعد ان کا اندراج پناہ کی درخواست کرنے والوں میں کر دیا جائے گا اور لیشی کے مطابق جب تک ان کی پناہ گزین کی حیثیت کے لیے درخواستوں پر کارروائی ہو گی انہیں پناہ کے متلاشی کا اسٹیٹس دے کر رہائش مہیا کی جائے گی۔
ویزہ حاصل کرنے میں دشواری
فرانسیسی عہدیدار لیشی نے بتایا کہ اسی طرح دیگر ایسی خواتین کو بھی نکال لیا جائے گا جو ایسے ہی عہدوں پر فائز رہی ہیں۔
ڈیلفین رولیٹ فرانس میں ٹیرا ڈیلزیلا نامی این جی اوز کی سربراہ ہیں جو پناہ گزینوں کے لیے کام کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان خواتین کو فرانس لانا ” کسی سیاسی فیصلے کا نتیجہ نہیں ہے” بلکہ ان کے ویزے حاصل کرنے کے لیے” سخت جدو جہد کرنی پڑی ہے۔”
فرانس لائی جانے والی یہ افغان خواتین ابتداء میں رولیٹ کی تنظیم کے تحت چلنے والے خواتین کے ایک سینٹر میں رہیں گی۔ یہ سینٹر مہینوں سے ایسی افغان خواتین کو فرانس لانے کے لیے کام کرتا رہا ہے جنہیں ان پانچ خواتین جیسی مشکلات کا سامنا ہے۔
رولیٹ نے کہا ہے کہ ایسی سینکڑوں افغان خواتین پاکستان میں “چھپی” ہوئی ہیں۔
فرانس کے صدر ایمینوئیل میکراں نے 2021 کے وسط میں وعدہ کیا تھا کہ “فرانس افغانوں کا ساتھ دے گا۔”
فرانس کے حکام کا کہنا ہے کہ تب سے اب تک تقریباً 16 ہزار لوگوں کو افغانستان سے نکالا گیا ہے۔