پیانگ یانگ (ڈیلی اردو/رائٹرز/بی بی سی) شمالی کوریا کے رہنما کم جانگ ان نے ایک عالی شان تقریب میں اپنے ملک کی ایک نئی ’جوہری‘ آبدوز کی رونمائی کی ہے۔
سرکاری میڈیا نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس آبدوز کے بدولت ملک کے جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔
اس آبدوز کا نام ’ہیرو کم کن اوک‘ رکھا گیا ہے۔ یہ شمالی کوریا کی بحریہ کے ایک تاریخی افسر کے نام سے منسوب کی گئی ہے۔
شمالی کوریا کی جانب سے عسکری آلات مینوفیکچر کرنے کی فہرست میں ایک عرصے سے ایک ایسی آبدوزموجود تھی جو جوہری ہتھیاروں کا استعمال کر سکے۔
سرکاری میڈیا کی طرف سے جاری کی گئی تصویروں میں شمالی کوریا کے رہنما کو بحریہ کے افسروں کے درمیان دیکھا جا سکتا ہے جبکہ ان کے ساتھ ایک کالے رنگ کی بڑی آبدوز دیکھی جا سکتی ہے۔
انھوں نے اس موقع پر کہا کہ یہ شمالی کوریا کی بحریہ کی ’پانی میں جارحیت‘ کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہو گی۔
انھوں نے کہا کہ ’جوہری ہتھیار سے حملہ کرنے والی آبدوز۔۔۔ اب ہماری خطرناک طاقت کی علامت ہے جو ہمارے بےایمان دشمنوں پر خوف طاری کر دیتی ہے۔‘
تاہم اس بارے میں شکوک و شبہات موجود ہیں کہ آیا یہ واقعی ایک حملہ کرنے والی آبدوز ہے جس کا شمالی کوریا دعویٰ کر رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ دراصل سرد جنگ کے عرصے میں بننے والی آبدوز ہے جس میں کچھ حد تک جدت لائی گئی ہے۔
آبدوز کے بارے میں کیا معلومات ہیں؟
ایشیائی اور مغربی عسکری تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ شمالی کوریا نے دنیا کو جو کچھ دکھایا وہ سوویت دور کی رومیو کلاس آبدوز ہے، جسے سنہ 2019 میں کم جونگ ان کی جانب سے پہلے ہی ’پروپیگنڈا‘ کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی صلاحیت کو شامل کرنے کے لیے جدت لائی گئی ہے؟ اب تک جو کچھ دکھایا گیا ہے اس سے یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی آپریشنل صلاحیت ہے کیونکہ اسے صرف ایک شپ یارڈ میں دیکھا گیا تھا اور ایسی کوئی فوٹیج نہیں ہے جس سے اس کو جوہری صلاحیت والے میزائلوں کو نیویگیٹ کرتے یا کامیابی سے لانچ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہو۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز کے ایک محقق جوزف ڈیمپسی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک پلیٹ فارم کے طور پر اس میں کچھ بنیادی حدود اور کمزوریاں ہوں گی۔‘
ریاستی میڈیا کی طرف سے نشر کی جانے والی تصاویر میں آبدوز کے سٹرن اور پروپیلرز کو دھندلا کر دیا گیا شاید یہ اس بات کو چھپانے کے لیے کیا گیا ہو سکتا ہے کہ یہ ایک پرانی آبدوز ہے۔
امریکی حکومت کے ہتھیاروں کے ماہر وان ون ڈائیپن نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ دیگر ممکنہ حدود یہ ہیں کہ یہ شور کرنے والی، سست اور محدود حد تک جانے والی آبدوز ہو سکتی ہے۔
عسکری امور کی سائٹ دی ڈرائیو کے کالم نگار ٹائلر روگووے کے مطابق ’اگر شمالی کوریا اسے استعمال میں لاتا ہے تو اس کے مشترکہ ڈیزل-الیکٹرک انجن سے آنے والے شور کی وجہ سے جنوبی کوریا، جاپان اور امریکہ اس کا تیزی سے پتا کر لے گے۔‘
ٹائلر روگووے نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کا میزائل سٹور جہاز کے پیچھے تک پھیلا ہوا ہے اور واضح طور پر کل دس کمپارٹمنٹس کے لیے اس کے ہر طرف پانچ دروازے ہیں۔ اگلے چار کمپارٹمنٹ پچھلے چھ سے بڑے ہیں۔‘
’یہ بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ آبدوز کو متعدد قسم کے میزائلوں کو لے جانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، خاص طور پر شارٹ رینج سب میرین لانچڈ بیلسٹک میزائل (ایس ایل بی ایم) اور مختصر فاصلے کے سب میرین لانچڈ کروز میزائل (اس ایل سی ایم) کے مجموعے کو۔‘
سیول کے آسن انسٹی ٹیوٹ فار پولیٹیکل سٹڈیز کے ماہر یانگ یوک نے اس تجزیے سے اتفاق کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ لانچ پیڈ اپنے سائز کے لحاظ سے ’غیر معمولی طور پر بڑا‘ ہے، ’گویا شمالی کوریا جوہری طاقت دکھانا چاہتا تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ یہ ڈھانچہ آبدوز کی ’سٹیلتھ‘ اور ’چالبازی‘ کو محدود کر دے گا۔
لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ شمالی کوریا کی بحریہ کے پاس درجنوں چھوٹی آبدوزیں ہیں جو کہ ایٹمی نہیں ہیں، لیکن ایک ساتھ حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کی صلاحیت کی موجودگی کو شمالی کوریا کے لیے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی مہم جوئی میں ایک اور اہم قدم کے طور پر دیکھا جائے گا۔ ان کے حملے جنوبی کوریا، امریکہ اور جاپان کے آبدوز شکن اثاثوں کو بھی غیر متحرک کر سکتے ہیں۔‘
’سنگین خطرہ‘
جنوبی کوریا نے آبدوز کی صلاحیتوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ شمالی کوریا نے انھیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہو۔
جاپان نے اس پیش رفت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ چیف کیبنٹ سیکریٹری ہیروکازو ماتسونو نے کہا کہ شمالی کوریا کی فوجی سرگرمیاں ’ہمارے ملک کی سلامتی کے لیے ماضی کے مقابلے میں زیادہ سنگین اور قریب ترین خطرے کی نمائندگی کرتی ہیں۔‘
امریکہ نے جولائی میں جنوبی کوریا میں موجود جوہری صلاحیت رکھنے والی بیلسٹک میزائل آبدوز کو لنگر انداز کیا تھا، اس نے چار دہائیوں میں پہلی بار ایسا اقدام کیا ہے۔
آبدوز کی رونمائی شمالی کوریا کے قیام کی 75 ویں سالگرہ سے کچھ دن پہلے سامنے آئی ہے۔ چین کے سرکاری میڈیا نے کہا ہے کہ تقریبات میں شرکت کے لیے بیجنگ سے ایک وفد شمالی کوریا پہنچے گا۔
یہ بھی اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ کم جانگ ان کا اس ماہ صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کے لیے روس کا سفر کرنے کا ارادہ بھی ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس ملاقات میں شمالی کوریا روس سے جدید ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی درخواست کر سکتا ہے۔