واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے) امریکی حکومت کے ایک مشاورتی پینل نے جمعے کے روز اتحادی فرانس کی طرف سے سکول کی طالبات کے عبایا پہننے پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پورے جسم کو چھپانے والے لمبے اور ڈھیلے ڈھالے لباس پر پابندی کا مقصد مسلم اقلیت کو “ڈرانا” ہے۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی امریکی حکومت کو سفارشات پیش کرتا ہے لیکن وہ خود پالیسی مرتب نہیں کرتا۔
کمیشن کے سربراہ، ابراہم کوپر نے عبایا پر پابندی کو “لائیسائٹ یا لادینیت، یعنی سرکاری سیکولرازم کی فرانسیسی قدر کو فروغ دینے کی گمراہ کن کوشش” قرار دیا۔
کوپر نے ایک بیان میں کہا، “فرانس مذہبی گروہوں، خاص، طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور دھمکانے کے لیے سیکولرازم کی ایک مخصوص تشریح کو جاری رکھے ہوئے ہے۔”
“اگرچہ کسی بھی حکومت کو اپنی آبادی پر کسی مخصوص مذہب کو مسلط کرنے کے لیے اپنا اختیار استعمال نہیں کرنا چاہیے، لیکن سیکولرازم کو فروغ دینے کے لیے افراد کے مذہبی عقائد کے پرامن عمل پر پابندی لگانا بھی اتنا ہی قابل مذمت ہے۔”
A US government advisory panel on Friday denounced ally #France's ban on schoolgirls wearing abayas, saying the restriction on the long, flowing dresses was meant to "intimidate" the Muslim minority. The US Commission on International Religious Freedom is tasked with making… pic.twitter.com/2yjBlOctiW
— KUWAIT TIMES (@kuwaittimesnews) September 8, 2023
فرانس کے وزیر تعلیم گیبریل اٹل نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ اسکول اب لڑکیوں کو مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے عبایا پہننے کی اجازت نہیں دیں گے۔
2004 میں، فرانس نے اسکول کے بچوں کو ایسے”نشانات یا لباس پہننے پر پابندی لگا دی جس سے طالب علم ظاہری طور پر مذہبی وابستگی ظاہر کرتے ہیں” اور سر پر اسکارف، پگڑی، بڑی صلیب کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
لیکن عبایا کی صورت حال کچھ مختلف رہی جسکے بارے میں کچھ خواتین نے کہا تھا کہ وہ انہیں مذہبی عقیدے کی بجائے اپنی ثقافتی شناخت کی وجہ سے پہنتی ہیں۔
قدامت پسند فرانسیسی سیاست دانوں نے پابندیوں کو وسیع کرنے کی کوشش کی ہے۔
ا نتہائی دائیں بازو کی رہنما میرین لی پین نے، جو گزشتہ سال کے صدارتی انتخابات میں صدر ایمانوئل میکرون کے بعد دوسرے نمبر پر آئی تھیں سڑکوں پر نقاب پہننے پر پابندی کے لیے مہم چلائی ہے۔
عبایا پر پابندی کی فرانس میں کچھ مسلم رہنماؤں اور بائیں بازو کے سخت گیر سیاسی رہنما ژاں لوک میلینچون نے مذمت کی ہے، جنہوں نے اسے تفریق کو ہوا دینے سے تعبیر کیا۔
https://twitter.com/JLMTV_INFOS/status/1698978901286916309?t=wUmZgcCpO6hCoc2ZPCCE4g&s=19
انہوں نے اس ہفتے ایک ٹی وی شو میں کہا،”فرانس کے مسلمانوں کی عزت کی جانی چاہئے۔”
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مقرر کردہ افراد پر مشتمل ہے لیکن اس کی کچھ سفارشات کو محکمہ خارجہ نے کئی بار نظر انداز کیا ہے، جس میں گزشتہ برسوں میں بھارت کی مذمت کے مطالبات بھی شامل ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ بھی ایک سیکولر ملک ہے جہاں چرچ اور ریاست میں آئینی علیحدگی ہے لیکن وہ سیکولرازم کی مختلف تشریح کرتا ہے۔