کابل (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے پی/ڈی پی اے) افغان طالبان کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ طورخم کی سرحدی گزرگاہ کی بندش پر کڑی تنقید کی ہے۔ دونوں ممالک کے مابین یہ مرکزی بارڈر کراسنگ اسی ہفتے بدھ کے روز اطراف کی سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپوں کے بعد بند کر دی گئی تھی۔
افغان طالبان نے پاکستان کے ساتھ اپنے ملک کی اس سب سے مصروف سرحدی گزر گاہ کی بندش پر تنقید کرتے ہوئے اتوار دس ستمبر کے روز کہا کہ اس بارڈر کراسنگ کے بند کر دیے جانے کے نتیجے میں تجارت کے لیے سامان کی آمد و رفت رک جانے سے افغان تاجروں کو بھاری کاروباری نقصانات ہو رہے ہیں۔
کابل میں وزارت خارجہ کی انتظامیہ کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق پہلے اس سرحد پر افغان سکیورٹی فورسز پر کی جانے والی فائرنگ اور پھر اس سرحد کو بند کر دینے کا فیصلہ ایسے اقدامات ہیں، جو ‘ہمسایوں کے طور پر اچھے طرز عمل‘ کے منافی ہیں۔
پاکستانی موقف
اس کے برعکس پاکستان کا دعویٰ ہے کہ یہ سرحدی گزر گاہ سرحد پار سے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں پر کی جانے والی فائرنگ اور پھر اطراف کے مابین فائرنگ کے تبادلے کے بعد بند کی گئی تھی۔ ساتھ ہی اسلام آباد کئی مرتبہ کابل میں موجودہ ملکی انتظامیہ سے یہ مطالبہ بھی کر چکا ہے کہ وہ افغان سرزمین سے پاکستان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز پر کیے جانے والے حملے بند کروائے۔
پاکستان کافی عرصے سے یہ مطالبہ بھی کر رہا ہے کہ عسکریت پسند افغان سرزمین کو پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور طالبان کی قیادت کو یہ سلسلہ بند کرانا چاہیے۔ پاکستان پر افغانستان سے حملے کرنے والے عسکریت پسندوں سے اسلام آباد کی زیادہ تر مراد ممنوعہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ان شدت پسندوں سے ہوتی ہے، جن میں سے بہت سے اب افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
طورخم کی سرحد کی بندش کی وجہ سے اس وقت یہ گزر گاہ پار کرنے کے خواہش مند ہزاروں ڈرائیور اپنے مال بردار ٹرکوں کے ساتھ وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ سرحد 2600 کلومیٹر (1615 میل) طویل ہے اور اس سرحد سے جڑے دوطرفہ تنازعات عشروں سے دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین کشیدگی کی وجہ بنتے رہتے ہیں۔
ایک اور پاکستانی فوجی کی ہلاکت
پاکستانی فوج کے مطابق ملک کے شمال مغرب میں افغان سرحد کے قریب گزشتہ رات عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک مسلح جھڑپ میں ایک اور پاکستانی فوجی مارا گیا۔
پاکستان آرمی نے اتوار کے روز بتایا کہ یہ جھڑپ صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں میر علی کے مقام پر ہوئی۔ وہاں پاکستانی سکیورٹی دستے عسکریت پسندوں کی تلاش کے لیے کارروائیاں کر رہے تھے کہ وہ شدت پسندوں کی فائرنگ کی زد میں آ گئے، جس کے بعد اطراف کے مابین فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا۔
ماضی میں وفاق پاکستان کے زیر انتطام قبائلی علاقے یا فاٹا کہلانے والے شمالی اور جنوبی وزیرستان جیسے متعدد نیم خود مختار اضلاع عشروں تک عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں رہے ہیں۔