ماسکو (ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی/رائٹرز) روس کی سرکار ی خبر رساں ایجنسی کے مطابق شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کو لے کر آنے والی ٹرین روس پہنچ چکی ہے۔ روسی صدر پوٹن ان سے ملاقات کے دوران توپ خانے کے ہتھیار اور ٹینک شکن میزائل فراہم کرنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی آر آئی اے نے ایک ٹرین کی ویڈیو جاری کی ہے، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان اسی ٹرین کے ذریعے روس کے انتہائی مشرقی علاقے میں پہنچنے ہیں۔
جنوبی کوریا کی فوج نے بھی کم جونگ ان کی روس پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔ سیول نے ایک بیان میں کہا، “وزارت قومی دفاع سمجھتی ہے کہ شمالی کوریا کے کم جونگ ان ایک نجی ٹرین کے ذریعہ منگل کی صبح روس پہنچے ہیں۔”
کوریا سینٹرل نیوز ایجنسی کے مطابق کم اتوار کے روز پیونگ یانگ میں اپنی ذاتی بکتر بند ٹرین میں سوار ہوئے تھے۔ حکمراں جماعت کے اعلیٰ اراکین اور فوجی بھی ان کے ساتھ ہیں۔
کریملن کی جانب سے پیر کے روز ایک مختصر بیان میں کم جونگ ان کے دورے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ دورہ روسی صدر کی دعوت پر کیا جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور کم جونگ ان کے درمیان ولادی ووستوک میں ملاقات متوقع ہے۔ اس ملاقات میں پوٹن ان سے یوکرین جنگ میں استعمال کرنے کی خاطر بھاری ہتھیار اور میزائل فراہم کرنے کے لیے درخواست کر سکتے ہیں۔
بات چیت کا ایجنڈا کیا ہے؟
کووڈ انیس کی وبا کے بعد کم کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔ پوٹن پیر کو ہی ولادی ووستوک پہنچ چکے ہیں، جہاں وہ مشرقی اقتصادی فورم کی بدھ تک جاری رہنے والی میٹنگ میں شریک ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کے علاوہ امریکی حکام کا بھی خیال ہے کہ اس ملاقات کے دوران پوٹن شمالی کوریا سے ہتھیاروں کی فراہمی کی درخواست کر سکتے ہیں تاکہ انہیں یوکرین کے خلاف جاری جنگ میں استعمال کر سکیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے پوٹن کا نام لیے بغیر کہا کہ بین الاقوامی سطح پر تنہا ایک شخص سے ملاقات کرنے کے لیے انہیں اپنے ملک کے دور دراز حصے کا سفر کرنا پڑ رہا ہے تاکہ ایک ایسی جنگ میں مدد طلب کی جا سکے، ”جسے وہ ابتدائی چند ماہ میں ہی جیت لینے کی توقع کر رہے تھے لیکن میں کہوں گا کہ اب وہ مدد کے لیے بھیک مانگ رہے ہیں۔‘‘
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بدلے میں کم جونگ ان پوٹن سے سیٹلائٹس کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی اور جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزوں کے علاوہ اناج فراہم کرنے کی درخواست کریں گے۔
کریملن کے ترجمان دیمتری پیشکوف کے بقول، ”جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ شمالی کوریا سمیت اپنے دیگر پڑوسیوں کے ساتھ باہمی تعلقات استوار رکھنا اور باہمی مفادات کا دفاع اہم ہے نا کہ واشنگٹن کی جانب سے دی جانے والی وارننگ۔‘‘