نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) جی ٹوئنٹی سمٹ میں شریک چینی وفد اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے مابین گزشتہ جمعرات کو قریب بارہ گھنٹے تک ‘ڈرامہ‘ ہوتا رہا۔ بھارتی حکام وفد کے ایک ‘غیر معمولی سائز‘ کے بیگ کی جانچ کرنا چاہتے تھے لیکن چینی اس پر تیار نہیں تھے۔
بھارتی میڈیا میں شائع شدہ خبروں کے مطابق نئی دہلی میں ہونے والے جی ٹوئنٹی کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے گزشتہ جمعرات کو جب چینی وفد نئی دہلی پہنچا اور اس نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں چیک ان کیا تو وفد کے ارکان کے پاس ایک ”غیر معمولی سائز‘‘ کا تھیلا بھی تھا، جس نے شکوک و شبہات پیدا کر دیے تھے۔
High Drama At Delhi 5-Star Hotel Over China G20 Delegates' Bags: Sources pic.twitter.com/bGNIJfx0cS
— NDTV (@ndtv) September 13, 2023
ہوٹل کے عملے نے اگرچہ سفارتی سامان کے زمرے میں اس تھیلے کو کمرے میں لے جانے کی اجازت دے دی تھی تاہم ساتھ ہی اس نے اس بیگ میں مشتبہ جاسوسی آلات‘‘ کی موجودگی کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے اس کی اطلاع بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں کو بھی دے دی تھی۔ اس کے بعد ایک ایسا ‘ڈرامہ‘ شروع ہو گیا، جو تقریباً 12 گھنٹے تک جاری رہا۔
معاملہ کیا تھا؟
چینی وفد نے نئی دہلی کے فائیو اسٹار ہوٹل تاج پیلس میں قیام کیا تھا۔ ہوٹل کے سکیورٹی عملے نے سفارتی پروٹوکول کا خیال رکھتے ہوئے چینی مہمانوں کو ان کے تمام بیگ اپنے ساتھ کمروں میں لے جانے کی اجازت دے دی تھی۔
ہوٹل اسٹاف کے ایک رکن نے بعد میں دیکھا تھا کہ چینی وفد کے ایک کمرے میں دو بیگوں میں ”کچھ مشتبہ آلات‘‘ رکھے ہوئے تھے۔ ہوٹل اسٹاف نے اس کی اطلاع بھارتی سکیورٹی حکام کو دے دی۔ اس پر سکیورٹی حکام نے چینی وفد سے ان تھیلوں کو اسکینر سے گزارنے کے لیے کہا لیکن وفد نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
چینی وفد کا اصرار تھا کہ یہ چونکہ سفارتی بیگج تھا، لہٰذا اس کی جانچ نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس پر بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ وفد کے ارکان کی تکرار بھی ہوئی۔
معاملہ کیسے حل ہوا؟
چینی وفد کے انکار کی وجہ سے تعطل پیدا ہو گیا تھا۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق بعد میں چینی وفد صرف ایک شخص کو چھوڑ کر دیگر تمام اراکین کے بیگ اسکین کروانے پر راضی ہو گیا، جس کی وجہ سے بھارتی سکیورٹی اہلکاروں کا شبہ اور بھی بڑھ گیا۔
ان کے اس شبے کو اس وقت اور بھی تقویت ملی جب چینی وفد نے اپنے لیے ”علیحدہ اور پرائیویٹ انٹرنیٹ کنکشن‘‘ کا مطالبہ کر دیا۔ ہوٹل انتظامیہ نے تاہم یہ درخواست ٹھکرا دی، جس کے بعد بارہ گھنٹے تک چلنے والا ڈرامہ شروع ہو گیا۔
رپورٹوں کے مطابق ہوٹل کے کمرے کے باہر ایک سکیورٹی ٹیم تعینات کر دی گئی تھی، جو تقریباً 12 گھنٹے تک پہرہ دیتی رہی اور یہ ڈرامہ اس وقت اپنے اختتام کو پہنچا جب کافی طویل بحث کے بعد وفد مذکورہ بیگ کو چینی سفارت خانے منتقل کرنے پر راضی ہو گیا۔
بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات
نئی دہلی میں نو اور دس ستمبر کو ہونے والے جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس میں گوکہ اس گروپ میں شامل تقریباً تمام ملکوں کے سربراہان مملکت و حکومت اور دیگر خصوصی مہمانوں نے شرکت کی لیکن روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ اس سمٹ میں شامل نہ ہوئے۔ شی جن پنگ نے اپنی جگہ چینی وزیر اعظم لی چیانگ کو نئی دہلی بھیجا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شی جن پنگ کی عدم شرکت بھارت اور چین کے درمیان کشیدہ تعلقات کا ایک اور ثبوت ہے۔
حالانکہ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اسے بھارت کی سفارت کاری کی ناکامی ماننے سے انکار کر دیا اورکہا کہ ہر ملک کو خود فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ کس سطح پر اپنی نمائندگی کرے گا، اس لیے ”اہم یہ نہیں ہے کہ کسی ملک نے کیا موقف اختیار کیا، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ مباحث اور نتائج میں اس ملک کا حصہ کتنا رہا۔ اور اس کا اطلاق چین پر بھی ہوتا ہے۔‘‘
خیال رہے کہ یوں تو بھارت اور چین کے درمیان عشروں سے سرحدی تنازعات جاری ہیں لیکن سن 2020ء میں بھارتی اور چینی دستوں کے مابین لداخ میں ہونے والی پرتشدد جھڑپوں کے بعد سے دوطرفہ تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے تھے۔