واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں تعینات رہنے والے سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن کو وفاقی اخلاقیات کے قوانین کی خلاف ورزی پر تین سال پروبیشن کی سزا سنائی گئی۔
پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں تعینات رہنے والے سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن کو وفاقی اخلاقیات کے قوانین کی خلاف ورزی پر تین سال پروبیشن کی سزا سنائی گئی۔
تریسٹھ سالہ اولسن پر بطور سفیر اپنے ذاتی فائدے کے لیے سرکاری عہدے کا غلط استعمال کرنے کے الزامات ثابت ہونے پر تین سال پروبیشن کی سزا کے ساتھ ساتھ 93,400 ڈالر کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔
رچرڈ اولسن نے 2012ء سے 2015 ء تک پاکستان میں امریکی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔ انہوں نے گزشتہ سال جون میں غلط بیان دینے اور غیر ملکی حکومت کے لیے لابنگ کرنے سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کا اعتراف کر لیا تھا۔
اولسن پر 2016 ء میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے امریکی محکمہ خارجہ سے ریٹائر ہونے کے فوراً بعد امریکی پالیسی سازوں پر اثر انداز ہونے میں قطر کی حکومت کی مدد کی تھی۔
جمعہ 15 ستمبر کو واشنگٹن میں امریکی دفتر استغاثہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا، ”امریکی قانون کے تحت کسی بھی سینئر اہلکار کو اپنا عہدہ چھوڑنے کے بعد ایک سال تک امریکی حکومت پر اثر انداز ہونے کے لیے کسی وفاقی ایجنسی کے سامنے غیر ملکی حکومت کی نمائندگی کرنے یا کسی غیر ملکی ادارے کی مدد کرنے یا اُسے مشورہ دینے پر سخت پابندی عائد ہے۔‘‘
دفتر استغاثہ کے مطابق، ”رچرڈ اولسن نے ان غیر قانونی سرگرمیوں کو چھپانے کے لیے متعدد اقدامات کیے، جن میں مجرمانہ ای میلز کو حذف کرنا اور ریکارڈ شدہ انٹرویو کے دوران ایف بی آئی سے دروغ گوئی شامل ہے۔‘‘
امریکی اٹارنی کے دفتر کے مطابق، اولس نےپاکستان میں امریکی سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے کے دوران، ایک پاکستانی نژاد امریکی تاجر سے بھی مراعات اور فوائد حاصل کیے۔ عدالتی دستاویزات میں اس پاکستانی نژاد امریکی تاجر کا نام یا شناخت ”پرسن 1‘‘ کے طور پر درج ہے۔
اولسن کو دیے گئے مراعات اور فوائد میں 25 ہزار ڈالر کی رقم جو ان کی اُس وقت کی گرل فرینڈ کو نیو یارک کی معروف کولمبیا یونیورسٹی میں فیس کی ادائیگی کے لیے دی گی تھی، کے علاوہ ایک ملازمت کے سلسلے میں انٹرویو کے لیے لندن کے لیے پرواز میں فرسٹ کلاس ٹکٹ، جس کی قیمت 18 ہزار ڈالر تھی، بھی شامل ہیں۔ امریکی اٹارنی دفتر کے بیان میں مزید کہا گیا، ”ایک بڑی فیور یہ تھی کہ مدعا علیہ نے پرسن 1 کی جانب سے پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کو ہتھیاروں کی فروخت کے حوالے سے کانگریس کے ممبران کے ساتھ لابنگ کے ذریعے اُس کی مدد کی تھی۔‘‘
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، ”پرسن1‘‘ عماد زبیری ہیں، جنہیں 2021ء میں غیر قانونی مہم میں شراکت اور دیگر جرائم پر 12 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کس طرح سابق سفیر رچرڈ اولسن نے اپنی سروس کے دوران اور بعد میں ذاتی اور سفارتی سرگرمیاں کیں لیکن کسی نہ کسی طرح اس سے کم از کم پاکستان میں مونا حبیب کا میڈیا ٹرائل شروع ہوگیا۔
واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے فون انٹرویو میں مونا حبیب نے رچرڈ اولسن کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ’میں بیمار ہوں اور اس سے تھک گئی ہوں‘۔
عدالتی فائلنگ میں رچرڈ اولسن کے وکلا نے کہا کہ سابق سفیر نے صرف ایک تعارف کرایا جو ایک سفارت کار کے لیے بہت عام عمل ہے اور یہ کہ ٹیوشن فیس کی ادائیگی کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں تھی کیونکہ وہ اس وقت مونا حبیب سے تعلقات میں نہیں تھے۔
واشنگٹن میں پاکستانی صحافی اکثر مونا حبیب سے ملاقات کرتے تھے، جو اب پریس میں سابق امریکی سفیر کی گرل فرینڈ کے طور پر مشہور ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ وہ اس وقت ایک پاکستانی اخبار میں کام کر رہی تھیں، بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ وہ اسلام آباد میں بی بی سی کے لیے بھی کام کر چکی ہیں۔
بعد ازاں اس وقت کے سفیر اسد مجید خان کی سرکاری رہائش گاہ پر بریفنگ کے دوران، انہیں معلوم ہوا کہ ان کی شادی رچرڈ اولسن سے ہوگئی تھی کیونکہ وہ مونا حبیب کو وہاں سے لینے پہنچے تھے۔
بہت سے پاکستانی صحافیوں کو ہفتہ کے روز واشنگٹن پوسٹ کا مضمون پڑھ کر افسوس ہوا، جس میں سابق سفیر کے ساتھ ان کے تعلقات کی تفصیل دی گئی تھی۔
واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ رچرڈ اولسن کے 2012 سے 2015 کے درمیان اسلام آباد میں بطور سفارت کار متعدد پاکستانی خواتین کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے، جن میں مونا حبیب بھی شامل تھیں۔
’ڈائمنڈز، گرل فرینڈز، غیر قانونی لابنگ: ایک سابق سفیر کا زوال‘ کے عنوان سے مضمون میں، اخبار نے بتایا کہ رچرڈ اولسن نے مونا حبیب کو کولمبیا یونیورسٹی کے گریجویٹ اسکول آف جرنلزم میں داخلے کے لیے ہزاروں ڈالرز فراہم کیے اور انہوں نے مونا حبیب کا تعارف ایک پاکستانی نژاد امریکی تاجر عماد زبیری سے کرایا، جس نے ٹیوشن کے اخراجات پورے کرنے کے لیے 25 ہزار ڈالرز ادا کرنے کی پیشکش کی۔
مضمون میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ خارجہ کے ساتھ 34 سالہ ممتاز کیریئر کے بعد رچرڈ اولسن 2016 میں ریٹائر ہو گئے، انہیں اپنی وسیع سفارتی خدمات کے لیے سراہا گیا جس میں پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں اہم کرداروں کے ساتھ ساتھ عراق اور افغانستان میں خطرناک اسائنمنٹس شامل ہیں۔
اس سے قبل عدالت میں پیش کیے گئے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ رچرڈ اولسن سے دبئی کے امیر کی طرف سے اپنی سابق اہلیہ ڈیبورہ جونز کی والدہ کو 60 ہزار ڈالرز کے ہیرے کے زیورات کے تحفے کی اطلاع نہ دینے پر تفتیش کی گئی تھی۔
واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ ایف بی آئی نے ان سے پاکستان میں کام کرنے والی ایک صحافی کے ساتھ ان کے غیر ازدواجی تعلقات کے بارے میں بھی پوچھ گچھ کی، جب وہ اسلام آباد میں امریکی سفیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔