لندن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) انسانی حقوق کی دو تنظیموں نے اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں ان سخت حالات پر روشنی ڈالی ہے، جن کا سامنا برطانیہ میں رہنے والے پناہ گزینوں کو ہے۔ رشی سوناک حکومت کی پناہ گزین کش پالیسیوں کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے کہا کہ برطانیہ میں پناہ کے متلاشی خاندانوں کو حکومت کی طرف سے فراہم کردہ عارضی رہائش گاہوں میں قیام کے دوران نامناسب حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے ان کی ذہنی و جسمانی صحت اور بچوں کی تعلیم تک رسائی متاثر ہوتی ہے۔
برطانیہ کے انسانی حقوق کے گروپ جسٹ فیئر کے ساتھ اشتراک میں 100 صفحات پر مشتمل ایک نئی رپورٹ جاری کرتے ہوئے ایچ آر ڈبلیو کا کہنا تھا کہ انہوں نے محسوس کیا کہ زندگی کے یہ سنگین حالات حکومتی پالیسی کی دیرینہ ناکامیوں کا نتیجہ ہیں۔
انسانی حقوق کی ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں ستائیس بچوں سمیت 50 سے زائد پناہ کے ان متلاشیوں کے انٹرویو کیے، جو انگلینڈ میں رہ رہے تھے یا حال ہی میں عارضی رہائش چھوڑ چکے تھے۔
رپورٹ کے مطابق ان میں سے اکثریت کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے پناہ گزینوں کو انیس دنوں کے اندر طویل المدتی رہائش میں منتقل کرنے کے حکومتی ہدف کے باوجود ان کے خاندانوں نے مہینوں عارضی رہائش گاہوں میں گزارے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہوٹلوں میں رہائش پذیر لوگوں کو’رہائش کے سنگین مسائل‘ کا سامنا ہے، جن میں جگہ کی کمی، سیلن، ٹوٹے ہوئے یا سرے غائب فرنیچر اور کیڑوں کے حملے شامل ہیں۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ پناہ گزین خاندان کھانا پکانے کی سہولیات تک رسائی کے بغیر اپنے بچوں کو مناسب خوراک فراہم کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور بچوں کو تعلیم تک رسائی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ مقامی اسکول انہیں فوری طور پر داخلہ لینے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی برطانیہ میں ڈائریکٹر یاسمین احمد نے کہا، ”حفاظت کے متلاشی لوگوں کے لیے غیر انسانی اور ناکافی رہائش کبھی بھی قابل قبول نہیں ہے اور یقیناً دنیا کی چھٹی بڑی معیشت میں نہیں۔‘‘
حکومت برطانیہ ”غیر قانونی‘‘ ہجرت کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو ملک کا ایک انتہائی متنازعہ سیاسی مسئلہ ہے اور اس پر دباؤ ہے کہ وہ تارکین وطن کو چھوٹی کشتیوں میں انگلش چینل پار کرنے کے خطرناک عمل سے روکے۔
حکومت نے چینل اور دیگر ‘غیر قانونی راستوں‘ کے ذریعے برطانیہ آنے والوں کے سیاسی پناہ کے دعوؤں کو روکنے کے لیے ایک متنازعہ قانون متعارف کرایا ہے۔ اس قانون کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن کو برطانیہ پہنچنے پر ان کی افریقی ملک روانڈا جیسے تیسرے ممالک میں منتقلی کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
لیکن تارکین وطن کو مشرقی افریقہ بھجوانے کی قانونی حیثیت پر عدالتی چیلنج کے درمیان یہ پالیسی روک دی گئی ہے۔ برطانیہ کی حکومت پناہ کے متلاشیوں کے لیے ہوٹل کی رہائش کے اخراجات کم کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے اور اس کے بجائے بارجز (ایک خاص قسم کی کشتیاں)، غیر استعمال شدہ فوجی اڈوں اور یہاں تک کہ خیمے استعمال کرنا چاہتی ہے۔
پچھلے مہینے برطانیہ نے متنازعہ طور پر جنوب مغربی انگلش ساحل سے دور ”بیبی اسٹاک ہوم‘‘ نامی کشتی پر تارکین وطن بالغ مردوں کو رہائش دینا شروع کی لیکن انہیں چند دنوں کے اندر اس کشتی کے اندر موجود پانی میں لیجیونیلا بیکٹیریا کے پائے جانے کے بعد ایک شرمناک دھچکے کا سامنا کرتے ہوئے اپنا یہ فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔