پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی پکڑ دھکڑ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ افغان ریفیوجیز کمشنریٹ نے بھی اس پالیسی پر نظرِ ثانی پر زور دیا ہے۔
افغان ریفیوجیز کمشنریٹ نے یہ مشورہ ملک کے مختلف شہروں اور قصبوں میں حالیہ دنوں میں سینکڑوں کی تعداد میں افغان باشندوں کی گرفتاری کے بعد دیا ہے۔
افغان مہاجرین کا الزام ہے کہ اُنہیں قانونی دستاویزات اور رجسٹریشن کے باوجود زبردستی ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ لیکن حکومتِ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے باعث بھی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین خود واپس جا رہے ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر آفریدی کے مطابق رواں سال رضاکارانہ طور پر وطن واپس جانے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے سال کی نسبت زیادہ ہے۔
اُن کے بقول رواں برس غیر قانونی طور پر مقیم 50 ہزار سے زائد افغان باشندے طورخم کے راستے واپس افغانستان چلے گئے ہیں۔
قیصر آفریدی کے مطابق غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو افغانستان کے قومی شناختی کارڈ (تذکرہ ) پر واپس جانے کے لیے تین دن کی مہلت دی جا رہی ہے۔
قبائلی ضلع لنڈی کوتل کے سینئر صحافی مہراب آفریدی نے رابطے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تذکرہ پر افغانستان واپس جانے والوں میں اکثریت بے روزگار یا پولیس کی پکڑ دھکڑ سے تنگ آنے والوں کی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ مرد حضرات کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد واپس جا رہی ہے۔
پیدائش پشاور میں ہوئی، لیکن اب واپس جانے پر مجبور ہوں’
پشاور کے علاقے نوتھیہ قدیم میں رہائش پذیر ایک افغان نوجوان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کی پیدائش اور پرورش پشاور میں ہوئی ہے، لیکن وہ پولیس کی پکڑ دھکڑ کے باعث واپس افغانستان جا رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے بہت سے رشتے دار جن کے پاس رجسٹریشن نہیں ہے وہ بھی واپس جا رہے ہیں، مگر طالبان حکومت کی سخت پالیسی کے باعث وہ خواتین کو ساتھ لیجانے کے معاملے پر گو مگو کا شکار ہیں۔
افغان کمشنریٹ کا حکام کے نام خط
پشاور میں افغانستان سے ہجرت کرنے والے مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے 1979 سے قائم افغان کمشنریٹ نے خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس کو 12 ستمبر کو لکھے گئے خط میں پاکستان میں افغان شہریوں کی گرفتاری کا معاملہ اٹھایا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ خیبر پختونخوا میں قانونی طور پر رہائش پذیر یا رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو تنگ کرنے سے فائدے کے بجائے نقصان ہو رہا ہے۔
خط میں افغان کمشنریٹ نے رجسٹرڈ افغان شہریوں کو گرفتار یا تنگ کرنے سے گریز کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
خیبرپختونخوا پولیس کا مؤقف
خیبر پختونخوا پولیس کے ترجمان محمد ریاض نے افغان مہاجرین کے خط پر کسی قسم کا تبصرہ کیے بغیر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پولیس وفاقی حکومت کے فیصلوں کی پابند ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کئی بار یہ واضح کر چکے ہیں کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو واپس بھجوایا جائے گا۔
کراچی میں افغان مہاجرین کی پکڑ دھکڑ پر افغان باشندوں کے جرگے نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ غیر رجسٹرڈ مہاجرین کو واپسی کے لیے چھ ماہ کا وقت دیا جائے۔
پشاور میں مقیم ایک افغان تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہزاروں افغان شہریوں کے پاکستان میں اربوں روپے مالیت کے اثاثے ہیں۔ لہذٰا حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ انہیں اپنے اثاثے واپس لیجانے کی بھی اجازت دی جائے۔
وفاقی وزارت داخلہ نے 15 ستمبر کو چاروں صوبوں، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کی انتظامیہ کو غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی معلومات جمع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ 2022 میں رضاکارانہ طور پر واپس جانے والوں کی تعداد چھ ہزار 39 تھی جب کہ رواں برس اگست تک 10 ہزار 635 افراد واپس جا چکے ہیں۔
پشاور کے ایک سینئر صحافی اور تجزیہ کار فرید اللہ خان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر افغان باشندے معاشی اور کاروباری طور پر کافی مستحکم ہیں اور اگر یہ لوگ واپس چلے گئے تو ان کی واپسی سے پاکستان ہی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو ایک ایسی پالیسی وضع کرنی چاہیے جس سے ملک کی معیشت کو نقصان نہ پہنچ سکے۔
اُن کے بقول غیر قانونی طور پر رہائش پذیر لوگوں کو تذکرہ پر واپس جانے کے لیے بھی ایک مخصوص مدت دینی چاہیے اور جب یہ لوگ واپس چلے جائیں تو پھر واپسی کے تمام راستوں کو بند کر دینا چاہیے۔