دوحہ (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے) پانچ امریکیوں میں سے تین کو دس سال کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔ امریکی حکام نے دیگر دو افراد کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق قیدیوں کا تبادلہ بائیڈن کے لیے سیاسی مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔
ایران میں برسوں سے زیر حراست پانچ امریکی شہریوں نے پیر کے روز ایک خصوصی طیارے سے قطری دارالحکومت دوحہ پہنچ کر طویل عرصے کے بعد آزاد فضاؤں میں سانس لیا۔ ان کی رہائی امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے سیاسی طور پر ایک خطرناک معاہدے کے نتیجے میں عمل آ سکی، جس کے تحت بائیڈن انتظامیہ نے ایران کے منجمند کیے گئے تقریباً چھ بلین ڈالر تہران حکومت کے حوالے کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔
Part of the arrival of United States detainees, held by the Islamic Republic of Iran, at Doha International Airport, in implementation of the Qatari-mediated agreement between the two countries.#MOFAQatar pic.twitter.com/zRI1ayZzxe
— Ministry of Foreign Affairs – Qatar (@MofaQatar_EN) September 18, 2023
اپنے پیاروں کی ایرانی قید سے رہا کرانے پر ان سابقہ قیدیوں کے اہل خانہ نے صدر بائیڈن کا بے حد شکریہ ادا کیا۔ تاہم امریکی صدر کو ایران کے ساتھ مالیاتی لین دین کے سلسلے میں ان کے سیاسی مخالف ریپبلکن صدارتی حریفوں اور دیگر ناقدین کی جانب سے آڑے ہاتھوں بھی لیا گیا۔
‘بے گناہوں کی واپسی‘
بائیڈن نے ایک بیان میں کہا، ”آج پانچ بے گناہ امریکی، جو ایران میں قید تھے، آخرکار وطن واپس آ رہے ہیں۔‘‘ دوسری جانب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک میں موجود ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے تجویز پیش کی کہ پیر کے روز ہونے والا قیدیوں کا یہ تبادلہ “ایران اور امریکہ کے مابین انسان دوستی کی سمت میں ایک قدم” ہو سکتا ہے۔
رئیسی نے صحافیوں کو بتایا،”یہ عمل یقینی طور پر اعتماد سازی میں مدد کر سکتا ہے۔‘‘ تاہم امریکہ اور ایران کے مابین تناؤ کا برقرار رہنا تقریباً یقینی ہے، جو تہران کے جوہری پروگرام اور دیگر معاملات پر تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن ہے لیکن اب اس نے یورینیم کی افزودگی کو ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والے درجے کے قریب تر کر دیا ہے۔
جذباتی مناظر
پیر کے روز جب امریکی شہریوں کو لے کر طیارہ دوحہ پہنچا تورہائی پانے والے قیدیوں نے باہر نکل کر قطر میں امریکی سفیر ٹِمی ڈیوس اور وہاں ان کے استقبال کے لیے موجود دیگر افراد کو گلے لگایا۔
اس کے بعد ان میں سے تین افراد سیامک نمازی، عماد شرغی اور مراد تہباز ایک دوسرے کے کندھوں پرہاتھ رکھے ایئرپورٹ کی ایک عمارت کی طرف چل پڑے۔ نمازی نے اپنی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا، ”اگر آپ سب نہ ہوتے تو میں آج آزاد نہ ہوتا، آپ نے دنیا کو مجھے بھولنے نہیں دیا۔‘‘
انہوں نےمزید کہا، ”اس وقت میری آواز بننے کا شکریہ، جب میں اپنے لیے بول نہیں سکتا تھا اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ جب میں نے ایون جیل کی ناقابل تسخیر دیواروں کے پیچھے سے چیخنے کی طاقت حاصل کی تو مجھے سنا گیا۔‘‘
نمازی کو 2015ء میں گرفتار کرنے کے بعد جاسوسی کے الزامات کے تحت دس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ سرمایہ کار عماد شرغی اور 2018ء میں گرفتار کیے گئے برطانوی نژاد امریکی مراد تہباز کو بھی بالترتیب دس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
امریکہ نے فوری طور پر رہائی پانے والے دیگر دو امریکیوں کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ ان سبھی کو امریکی حراست میں پانچ ایرانیوں اور منجمد ایرانی اثاثوں کےمعاہدے کے بدلے رہا کیا گیا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ نے کہا کہ رہا کیے گئے پانچ ایرانیوں سے امریکی قومی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ان امریکیوں میں سے دو کے خاندان کی خواتین، ایفی نمازی اور ودا تہباز، جو ایران میں رہتے ہوئے سفری پابندیوں کا شکار تھیں، وہ بھی دوحہ پہنچنے والے خصوصی طیارے میں سوار تھیں۔
رہائی پانے والے ایرانی کون؟
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا کہ دو ایرانی قیدی امریکہ میں ہی رہیں گے۔ دریں اثنا ایران کے سکیورٹی حکام کے قریب سمجھی جانے والی ویب سائٹ نور نیوز نے کہا کہ دو ایرانی قیدی تبادلہ کے لیے دوحہ میں موجود تھے۔
نور نیوز نے دوحہ میں رہائی پانے والے دو ایرانیوں کی شناخت مہر داد انصاری اور رضا سرہنگ پور کفرانی کے طور پر کی ہے۔ امریکہ نے انصاری کو 2021 میں میزائلوں، الیکٹرانک جنگی سازوسامان، جوہری ہتھیاروں اور دیگر فوجی سازوسامان میں استعمال ہونے والے آلات حاصل کرنے کے جرم میں 63 ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔
کفرانی کو بھی 2021 میں مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر لیبارٹری کے آلات ایران برآمد کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
غیرمنجمند رقم کا استعمال؟
ایران کو جاری کردہ 5.9 بلین ڈالر کی نقد رقم جنوبی کوریا پر ایرانی تیل کی خریداری کے بدلے واجب الادا تھی تاہم 2019 میں امریکہ کی جانب سے تہران حکومت کے ساتھ اس طرح کے لین دین پر پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد سے یہ رقم ادا نہیں کی گئی تھی۔
امریکی حکام کے مطابق یہ رقم محدود اکاؤنٹس میں رکھ کر صرف انسانی ہمدردی کے سامان، جیسے کہ ادویات اور خوراک کی خریداری کے لیے مہیا کی جائے گی۔ تاہم ایرانی حکام کا اصرار ہے کہ تہران رقم کیسے خرچ کرتا ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔
بائیڈن کے لیے سیاسی مضمرات
ایران کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے اس معاہدے نے پہلے ہی صدر بائیڈن کو ریپبلکنز اور دیگر مخالفین کی جانب سے تنقید کا ہدف بنا رکھا ہے۔ ان مخالفین کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ ایسے وقت میں ایرانی معیشت کو فروغ دینے میں مدد کر رہی ہے، جب ایران امریکی فوجیوں اور مشرق وسطیٰ کے اتحادیوں کے لیے ایک بڑھتا ہوا خطرہ بنا ہوا ہے۔
اس صورتحال کا بائیڈن کی آئندہ سال امریکی انتخابات کے لیے انتخابی مہم پر اثر پڑ سکتا ہے۔ تاہم صدر بائیڈن نے رہائی پانے والے امریکیوں کے اہل خانہ سے ٹیلی فون پر بات بھی کی، جسے وائٹ ہاؤس نے ایک جذباتی کال قرار دیا۔
اسی دوران بائیڈن انتظامیہ نے سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور ایرانی انٹیلیجنس کی وزارت پر نئی پابندیوں کا اعلان بھی کیا۔