واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی) جزیرہ گوانتانامو بے میں قائم فوجی عدالت کے ایک جج نے فیصلہ دیا ہے کہ امریکہ پر گیارہ ستمبر 2001 کو ہونے والے حملوں کے جرم میں مقدمے کا سامنا کرنے والے پانچ ملزمان میں شامل رمزی الشبہ کی حالت ایسی نہیں کہ ان کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکے۔
الشبہ کے خلاف مقدمے کے باقاعدہ آغاز سے قبل عدالتی کارروائی کا عمل جمعے کو شروع ہونا تھا اور مقدمے میں جرم ثابت ہونے پر سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق رمزی الشبہ ’پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر‘ اس سے منسلک نفسیاتی خصوصیات اور فریب کاری سے منسلک ایک بیماری میں مبتلا ہیں۔
ان کے وکیل طویل عرصے سے دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ان کے موکل کو ’سی آئی اے نے تشدد کا نشانہ بنایا‘۔
کیوبا کے مشرقی سرے پر واقع امریکی اڈے میں قائم فوجی عدالت کے جج کرنل میتھیو میک کال نے جمعے کو ڈاکٹروں کی جانب سے اگست کے مہینے میں جاری کردہ ان تشخیصی نتائج کو منظور کیا جن میں کہا گیا تھا کہ الشبہ کو نفسیاتی طور پر اتنا نقصان پہنچ چکا ہے کہ وہ عدالت میں اپنا دفاع کرنے کے قابل ہی نہیں رہے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ میڈیکل بورڈ نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ الشبہ وہم کا شکار نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اور وہ مقدمے کی کارروائی کی نوعیت کو سمجھنے سے قاصر تھے۔
25 اگست کو ان کا مقدمہ سننے والے جج کو فراہم کی گئی رپورٹ کے مطابق، اس حالت میں وہ نہ تو مقدمے کا سامنا کر سکتے ہیں اور نہ ہی اقبالِ جرم کر سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، فوج کے نفسیاتی ماہرین نے کہا کہ اپنی اس حالت کی وجہ سے وہ ’اپنے خلاف کارروائی کی نوعیت کو سمجھنے یا ہوش و حواس میں رہ کر تعاون کرنے سے قاصر ہیں‘۔
رمزی الشبہ پر جمعے کے روز چار دیگر مدعا علیہان کے ساتھ مقدمہ چلنا تھا، جن میں خالد شیخ محمد بھی شامل ہیں۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نائن الیون حملوں کے منصوبہ ساز تھے۔
مقدمے کی سماعت سے پہلے کرنل میک کال نے الشبہ کو اس مقدمے سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ دیگر چار ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت شیڈول کے مطابق آگے بڑھنے کا امکان ہے۔
ان پانچوں افراد پر 2001 میں طیاروں کے اغوا کی سازش کا الزام ہے اور ان طیاروں کو بطور ہتھیار بنا کر کیے گئے حملوں میں نیویارک، پینٹاگون اور پنسلوانیا میں تقریباً 3,000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
الشبہ پر الزام تھا کہ اس نے جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں القاعدہ کے اس گروپ کو منظم کرنے میں مدد کی تھی، جس نے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا کر تباہ ہونے والے دو مسافر طیاروں میں سے ایک کو اغوا کیا تھا۔
ان کے وکلا کا موقف رہا ہے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے رمزی کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ’نیند کی کمی، واٹر بورڈنگ اور مار پیٹ کا نشانہ بننے کی وجہ سے وہ پاگل ہو گئے‘۔
امریکی میڈیا کے مطابق، 2008 میں رمزی کی عدالت میں پہلی پیشی کے بعد سے ان کی ذہنی حالت ایک مسئلہ رہی ہے۔
گوانتانامو کیمپ امریکی بحریہ کے ایک اڈے پر واقع ہے اور اسے اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے 2002 میں مشتبہ غیر امریکی دہشت گردوں کو قید رکھنے کے لیے قائم کیا تھا۔
یہ کیمپ بش انتظامیہ کی ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ’ کی کچھ زیادتیوں کی علامت کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے کیونکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہاں زیر حراست افراد کو طویل عرصے تک بغیر مقدمہ چلائے رکھا گیا اور یہاں رائج تفتیش کے کچھ طریقے تشدد کے برابر ہیں۔
رمزی الشبہ کی گرفتاری کیسے عمل میں آئی تھی؟
رمزی الشبہ کی گرفتاری نائن الیون حملوں کے ٹھیک ایک برس بعد یعنی 11 ستمبر 2002 کو کراچی کے متموّل علاقے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کے فیز II سے عمل میں آئی تھی۔
صحافی جعفر رضوی کے مطابق یہ کارروائی دراصل صرف کراچی پولیس کا کارنامہ نہیں تھا بلکہ پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی اور امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سپیشل ایکٹیویٹیز ڈیویژن کا ایک مربوط اور مشترکہ آپریشن تھا جسے کراچی پولیس کی بھرپور معاونت و تعاون حاصل تھی۔
حکام نے جب رمزی کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا تھا اور انھیں شدید مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا اور شدت پسندوں کی جانب سے ان پر شدید فائرنگ کے علاوہ دستی بموں سے بھی حملہ کیا گیا تھا۔ اس آپریشن میں متعدد سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے تھے جبکہ رمزی الشبہ کے دو ساتھی مارے گئے تھے تاہم حکام رمزی کو زندہ گرفتار کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
گرفتاری کے محض تین دن بعد ہی یعنی 14 ستمبر 2002 کو رمزی الشبہ کو امریکہ منتقل کر دیا گیا۔ بعد ازاں سی آئی اے حکام نے انھیں ‘ایکسٹرا آرڈینری رینڈیشن’ (یا سرکاری حمایت کے ذریعے دائرۂ قانون کے باہر کی جانے والی کارروائی) کے تحت پہلے مراکش میں قائم بلیک سائٹ مرکز منتقل کر کے تفتیش کی۔ اگست 2010 میں سی آئی اے نے تسلیم کیا کہ اس کے پاس اس تفتیش کی ویڈیو ٹیپس موجود ہیں۔
چھ ستمبر 2006 کو امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اعلان کیا کہ رمزی الشبہ کو سی آئی اے کے ذریعے گرفتار کیے جانے والے 13 دیگر ملزمان کے ساتھ گوانتانامو بے منتقل کر دیا گیا ہے جہاں وہ آج بھی قید ہیں۔ رمزی بعض مقدمات میں جرمن حکام کو بھی مطلوب ہیں مگر امریکی حکام ان کی حوالگی یا سپردگی کا جرمن مطالبہ مسترد کر چکے ہیں۔
رمزی الشبہ کون ہیں؟
رمزی الشبہ یکم مئی 1972 کو یمن کے جنوبی صوبے ‘حضرِ موت’ کے علاقے غیل با وزیر میں ایک محنت کش خاندان میں پیدا ہوئے۔ ابھی وہ نوجوان ہی تھے کہ اُن کا خاندان بہتر معاشی مواقع اور اچھی زندگی کی تلاش میں دارالحکومت صنعا منتقل ہو گیا۔
1987 میں جب وہ ہائی سکول میں ہی زیرِ تعلیم تھے تو اُن کے والد کی وفات ہو گئی۔ دورانِ تعلیم ہی انھوں نے انٹرنیشنل بینک آف یمن میں بطور کلرک ملازمت اختیار کر لی اور 1995 تک بینک ہی سے وابستہ تھے۔
اسی برس انھوں نے نقل مکانی کے لیے پہلی بار امریکہ کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش کی مگر اُن کی ویزا درخواست رد کر دی گئی تو وہ بطور طالبعلم تعلیمی ویزا پر رمزی عمر کے فرضی نام سے جرمنی جا پہنچے۔
جرمنی میں انھوں نے خود کو سوڈان کا ایک پناہ گزین رمزی عمر ظاہر کرتے ہوئے سیاسی پناہ کی درخواست دی اور یہیں اپنے قیام کے دوران ہیمبرگ شہر کی ایک مسجد میں اُن کی ملاقات نائن الیون کے مرکزی ملزم قرار دیے جانے والے محمد عطا سے ہوئی اور اگلے دو برس تک رمزی اور محمد عطا ایک ہی کمرے میں مقیم رہے۔
اس دوران محمد عطا اور نائن الیون کے ہی ملزمان قرار دیے جانے دیگر افراد سے بھی اُن کے گہرے روابط اور دوستانہ مراسم قائم ہو گئے جن میں زیاد جراح اور مروان الشہی بھی شامل تھے۔ (امریکی اور عالمی حکام دوستوں کے اس گروہ کو ہیمبرگ سیل قرار دیتے ہیں)
ان چاروں افراد نے امریکہ میں ہوا بازی کی تربیت حاصل کرنے کی درخواست دی اور رمزی الشبہ نے ہوا بازی کے دوران استعمال ہونے والی زبان یا ایوی ایشن لینگویج سروس میں بھی داخلے کی درخواست کی مگر امریکہ میں ان کے داخلے کی درخواست پھر رد کر دی گئی جبکہ باقی افراد کو ویزے جاری کر دیے گئے۔
امریکی حکام کے مطابق انھوں نے بالترتیب 17 مئی 2000 اور اسی برس جون، 16 ستمبر اور 25 اکتوبر کو چار مرتبہ امریکہ کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش کی مگر ہر بار ناکام رہے۔
سنہ 1997 میں جرمن عدالت نے سیاسی پناہ کے لیے دائر کی جانے والی اُن کی درخواست رد کر دی اور وہ واپس جنوبی یمن کے اپنے آبائی علاقے لوٹ گئے مگر دو ہی برس بعد وہ دوبارہ اپنے اصلی نام سے ایک بار پھر جرمن ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
رمزی 1999 میں افغانستان کے جنوبی علاقے قندھار پہنچے جہاں ان کی ملاقات نائن الیون کے دیگر منصوبہ سازوں سے ہوئی اور یہیں انھوں نے القاعدہ کے مراکز میں شدت پسندی کی تربیت بھی حاصل کی تھی۔
آٹھ ستمبر 2006 کو یعنی نائن الیون کے پانچ سال بعد القاعدہ نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو نائن الیون کے حملہ آوروں سے ملاقات کرتے دکھایا گیا۔ اس ویڈیو میں القاعدہ نے رمزی الشبہ کو نائن الیون کا رابطہ کار قرار دیا تھا۔
اس ویڈیو میں رمزی اور نائن الیون کے دیگر ذمہ داران کو ہتھیاروں سمیت تربیت حاصل کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ حکام کا خیال ہے کہ یہ تربیتی مرکز افغان علاقے قندھار یا اس کے آس پاس واقع تھا۔
17 جنوری 2002 کو ایریل تحقیقاتی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن (ایف بی آئی) نے نائن الیون کے ذمہ دار حملہ آوروں کی ایک فہرست جاری کی تھی جس میں دنیا بھر کے عوام سے پانچ افراد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی جن کے بارے میں حکام بہت کم معلومات رکھتے تھے۔ اس فہرست میں رمزی الشبہ کو پانچ مطلوب ترین افراد میں سے چوتھے نمبر پر رکھا گیا۔