نیو یارک (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز) اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف نے بتایا ہے کہ جنگ زدہ افریقی ملک سوڈان کے مہاجر کیمپوں میں مئی کے مہینے سے اب تک بارہ سو بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس تباہ حال ملک میں ہزاروں نومولود بچوں کو موت کا خطرہ بھی ہے۔
یونیسیف کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ سوڈان میں جاری بحران کے شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور یہ صورت حال ملکی آبادی میں سب سے زیادہ خطرات کا سامنا کرنے والے سوڈانی بچوں کی صحت کے لیے مہلک ثابت ہو رہی ہے۔
یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر نے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے ظالمانہ لاپرواہی اور صحت اور غذائیت کے شعبوں میں عوامی خدمات کے اداروں پر اندھا دھند حملوں کے باعث یونیسیف کو خدشہ ہے کہ سوڈان میں آج سے لے کر سال رواں کے آخر تک مزید ہزارہا نومولود بچے موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔‘‘
اکتوبر سے دسمبر تک سوا تین لاکھ سے زائد بچوں کی پیدائش متوقع
پہلے برس ہا برس تک داخلی بے چینی اور اقتصادی بد حالی کے شکار اور اب کئی ماہ سے خونریز تنازعے کی زد میں آئے ہوئے ملک سوڈان میں اس وقت حاملہ خواتین کی تعداد اتنی ہے کہ اگلے ماہ اکتوبر سے لے کر دسمبر کے آخر تک وہاں تقریباﹰ تین لاکھ 33 ہزار بچوں کی پیدائش متوقع ہے۔
یونیسیف کے ترجمان جیمز ایلڈر کے الفاظ میں، ”اس ملک میں غذائی خدمات کے شعبے کی حالت پہلے ہی خراب تھی اور اب جنگ نے یہ حالت خراب تر کر دی ہے۔ یہی بات سب سے زیادہ تشویش کی وجہ ہے کہ سوڈان میں اب ان ہزارہا بچوں کی زندگیوں کو بھی شدید خطرات ہیں، جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے۔‘‘
اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے کے مطابق سوڈان میں ہر ماہ 55 ہزار ایسے بچوں کو طبی دیکھ بھال کی ہنگامی ضرورت پڑتی ہے، جنہیں اکثر واقعات میں جان لیوا حد تک غذائیت کی کمی کا سامنا ہوتا ہے۔‘‘
جیمز ایلڈر کے مطابق، ”خرطوم میں ہر 50 غذائی مراکز میں سے ایک سے بھی کم ایسا ہے، جو واقعی کام کر رہا ہے۔ مغربی دارفور کے علاقے میں یہ تناسب ہر دس غذائی مراکز میں سے ایک بنتا ہے۔‘‘
چار ماہ میں بارہ سو بچوں کی ہلاکت
اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق سوڈان کے صوبے سفید نیل میں اس ادارے کے کارکنوں نے 15 مئی سے لے کر 14 ستمبر تک 1200 سے زائد ایسے بچوں کی اموات ریکارڈ کیں، جن کی عمریں پانچ سال سے کم تھیں اور جو اپنے اہل خانہ یا ان میں سے چند کے ہمراہ نو مختلف مہاجر کیمپوں میں مقیم تھے۔
اسی عرصے کے دوران ان کیمپوں میں خسرے کے تین ہزار ایک سو سے زائد کیسز بھی دیکھنے میں آئے جب کہ 500 واقعات میں کم سن بچوں کو مشتبہ طور پر ہیضے کی بیماری کا سامنا بھی رہا۔
یہی نہیں سوڈان میں مجموعی طور پر اور بہت سے مہاجر کیمپوں میں خاص طور پر حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں ڈینگی بخار اور ملیریا کی متعدد وبائیں بھی دیکھنے میں آ چکی ہیں۔
عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ فیلیپو گراندی تو حال ہی میں ایک بیان میں یہ بھی کہہ چکے ہیں، ”دنیا کے پاس اتنے وسائل اور اتنی رقوم ہیں کہ خسرے یا غذائیت کی شدید کمی کی وجہ سے ایسی تمام انسانی اموات میں سے ہر ایک کو روکا جا سکے۔ اس کے لیے امدادی رقوم کی فراہمی بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنا یہ کہ سوڈان میں جاری ہلاکت خیز لڑائی فوراﹰ بند ہونا چاہیے۔‘‘