تہران (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے/اے پی/رائٹرز) تہران کا کہنا ہے کہ ملک کے نیم فوجی فورسز پاسداران انقلاب کے ‘ایرو اسپیس’ ادارے نے امیجنگ سیٹلائٹ کو خلاء میں روانہ کیا۔ تاہم حکام نے ابھی تک اس لانچ کی تصاویر فراہم نہیں کی ہیں۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے بدھ کے روز تہران کے اس دعوے کی اطلاع دی کہ ملک نے اپنے نور-3 نامی سیٹلائٹ کو کامیابی کے ساتھ مدار میں بھیج دیا ہے۔
#Iran reports successful launch of Nour 3 imaging satellite https://t.co/ntsWdNs5Cb pic.twitter.com/Ed7Ugrw5Xn
— IRNA News Agency (@IrnaEnglish) September 27, 2023
سرکاری خبر رساں ادارے آئی آر این اے (ارنا) نے وزیر مواصلات عیسیٰ زری پور کے حوالے سے کہا کہ امیجنگ سیٹلائٹ کو زمین کی سطح سے 450 کلومیٹر کی بلندی پر مدار میں بھیجا گیا۔
مغرب کے ساتھ ایران کی بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان یہ اعلان سامنے آیا ہے۔ تاہم مغربی حکام کی جانب سے ایسے کسی لانچ یا سیٹلائٹ کے مدار میں پہنچنے سے متعلق فوری طور پر اعتراف کرنے کی خبر سامنے نہیں آئی۔ ایرانی حکام نے ابھی تک سیٹلائٹ لانچ کی تصاویر بھی جاری نہیں کی ہیں۔
البتہ امریکہ نے پہلے یہ دعویٰ ضرور کیا تھا کہ تہران کی جانب سے سیٹلائٹ لانچ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے خلاف ہے۔ اس نے ایران پر زور دیا کہ وہ جوہری ہتھیار لے جانے کے قابل بیلسٹک میزائلوں سے متعلق کسی بھی سرگرمی سے گریز کرے۔
سیٹلائٹ لانچ سے متعلق ہمیں مزید کیا معلوم ہے
وزیر مواصلات عیسیٰ زری پور نے کہا کہ ایران کے نیم فوجی فورسز پاسداران انقلاب سے وابستہ ‘ایرو اسپیس’ ادارے، جس نے ماضی میں بھی سیٹلائٹ لانچ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، اس لانچ کی ذمہ دار ہے۔
پاسداران انقلاب فورسز کی ایران کی باقاعدہ مسلح افواج کے متوازی ایک اپنا خلائی پروگرام بھی ہے اور یہ فورسز صرف سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ہی جواب دہ ہے۔ اس سے قبل اس نے اپنا پہلا سیٹلائٹ اپریل سن 2020 میں خلا میں چھوڑا تھا۔
ایران اور امریکہ میں کشیدگی
ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی اس وقت عروج پر پہنچ گئی تھی، جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں جوہری معاہدے سے امریکہ کو الگ کر لیا تھا اور ایران پر پابندیاں بحال کر دی تھیں۔
اس کے ایک برس بعد ایران نے بھی جوہری معاہدے کی شرائط کو توڑنا شروع کیا، جس میں یورینیم کو اس اعلیٰ سطح تک افزودہ کرنا بھی شامل ہے، جس کی ممانعت تھی۔ پھر اگست 2022 میں اس معاہدے کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کے لیے ویانا میں باضابطہ بات چیت شروع ہوئی۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے اس ماہ کے اوائل میں اطلاع دی تھی کہ اس پیش رفت کے نتیجے میں تہران نے یورینیم کی افزودگی کی رفتار کو بھی اس حد تک کم کر دیا ہے کہ اس سے جوہری ہتھیار بنایا جا سکے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے بھی رواں ماہ میں کہا تھا کہ اگر امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ جوہری معاہدے میں واپسی کی خواہش رکھتی ہے تو واشنگٹن کے ساتھ تعلقات آگے بڑھ سکتے ہیں، تاہم پہلا قدم امریکہ کو اٹھانا چاہیے اور پابندیوں میں نرمی کی جانی چاہیے۔
ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام طویل مدتی توانائی کی آزادی کو یقینی بنانے کا ایک طریقہ کار ہے اور یہ سویلین مقاصد کے لیے ہے۔ وہ اپنے جوہری پروگرام کو اپنے علاقائی حریفوں کے خلاف ایک تدارک کے طور پر بھی دیکھتا ہے۔