پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ بھتہ خوری کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تاجر برادری کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بھتہ خوری کی رقم دہشت گردی کے لیے بھی استعمال ہو رہی ہے۔
بھتہ خوری کا تازہ ترین واقعہ پشاور صدر کے مصروف ترین صدر روڈ پر بدھ کی صبح پیش آیا جب 82 سالہ معمر تاجر حاجی اکرام کو نامعلوم نقاب پوشوں نے مبینہ طور پر اغوا کر لیا۔
پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔ پشاور کے سیاسی اور کاروباری حلقوں نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔
اغوا کیے جانے والے تاجر کے بیٹے اور دیگر رشتے دار اس واقعے پر بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
پشاور کی تاجر تنظیم کے سربراہ حاجی شرافت علی مبارک کہتے ہیں کہ مغوی کے اہلِ خانہ فی الحال انتظار کر رہے ہیں جب کہ پولیس حاجی اکرام کی بحفاظت واپسی کے دعوے کر رہی ہے۔
پشاور کے سینئر صحافی فیصل اکبر افریدی کا کہنا ہے کہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ مغوی خاندان کو بھی بھتے کی ادائیگی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
اُن کے بقول چند روز قبل ایک اعلی سرکاری عہدے دار کے بھتیجے کے اغوا کے بعد بھی بھتہ خوروں نے ایک کروڑ روپے وصول کیے تھے۔
تاجر تنظیم کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حاجی اکرام کے اغوا کو پولیس کی نااہلی قرار دیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ صدر کے علاقے میں وارداتیں معمول بن چکی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی دھمکیوں سے تنگ آ کر کئی تاجر اسلام آباد اور پنجاب منتقل ہو رہے ہیں۔
انسدادِ دہشت گردی پولیس کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال مجموعی طور پر بھتہ خوری اور دہشت گردوں کی معاونت کے 271 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ان میں 198 دہشت گردوں کی مالی معاونت جب کہ 73 بھتہ خوری کے ہیں۔
ان واقعات میں نامزد ایک ہزار سے زیادہ ملزمان میں سے 345 گرفتار کیے گئے۔
انسداد دہشتِ گردی پولیس (سی ٹی ڈی) خیبر پختونخوا کے سربراہ ڈی آئی جی شاہد عمران کے بقول دیگر مطلوب ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی میں ملوث لگ بھگ 135 افراد کی فہرست بھی جاری کر دی گئی ہے اور ان لوگوں کی گرفتاری میں مدد فراہم کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔
ڈی آئی جی شاہد عمران نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بھتہ خوری اور دہشت گردی کی معاونت کرنے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ دو دن قبل بھتہ خوری میں ملوث دو ملزمان گرفتار کیے جا چکے ہیں اور اب ان کے ساتھ منسلک دیگر 70 کے لگ بھگ افراد کو گرفتار کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔
انہوں نے یہ بھی تصدیق کی کہ بھتہ خوری میں ملوث افراد کا تعلق ہمسایہ ممالک سے ہے۔ لہذا انسدادِ دہشت گردی پولیس نے وفاقی حکومت کو اس مسئلے کو افغانستان کے ساتھ اٹھانے کا مشورہ دیا ہے۔
عمران شاہد کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھتہ خوری سے حاصل ہونے والی رقم بھی دہشت گردی کی وارداتوں میں استعمال ہو رہی ہے۔
سی ٹی ڈی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال بھتہ خوری کے 73 واقعات میں 41 مقدمات کا سراغ لگا لیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ درج مقدمات میں نامزد 224 ملزمان میں اب تک 100 گرفتار ہو چکے ہیں جب کہ مختلف کارروائیوں میں بھتہ خوری میں ملوث چھ ملزمان ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
حکام کے مطابق پشاور ریجن میں بھتہ خوری کے واقعات میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت دیگر تنظیموں کے اہل کار اور سہولت کار ملوث ہیں۔
دہشت گردی میں ملوث مطلوب افراد
سی ٹی ڈی خیبر پختونخوا نے جمعرات کو دہشت گردی میں ملوث انتہا ئی مطلوب 135 افراد کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے میں عوام سے مدد فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔
اعلامیے کے مطابق سی ٹی ڈی کو مطلوب 135 دہشت گردوں کے سر کی قیمت تین لاکھ سے 10 کروڑ روپے تک رکھی ہے۔