واشنگٹن (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) امریکہ نے ایک ایسے نیٹ ورک پر پابندیاں عائد کر دی ہیں جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ ایران کے ڈرون پروگرام کے لیے حساس پرزے حاصل کر رہا ہے ۔ امریکہ نے ایران پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ وہ یوکرین پر حملوں کے لیے ڈرونز کی فراہم کر کے روس کی مدد کر رہا ہے۔
امریکی وزارت خزانہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نیٹ ورک نے پاسداران انقلاب کی مالی مدد کرتے ہوئے ایسے اہم پرزوں کے حصول میں اعانت کی ہے جو ایران کے شاہد ۔136ڈرونز کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں ۔
امریکی محکمہ خزانہ نے بتایا ہے کہ ایران پر پابندیوں کے سلسلے کی یہ تازہ ترین کڑی ہے۔ بدھ کے روز عائد کی جانے والی ان پابندیوں میں ایران، ترکی، چین اور متحدہ عرب امارات کے افراد اور اداروں کو ہدف بنایا گیا ہے۔
محکمہ خزانہ کے عہدے دار برائن نیلسن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایرانی ساختہ ہواباز کے بغیر اڑنے والی گاڑی یا یو اے ای (ڈرون) نے یوکرین پر روس کے حملوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان میں وہ حملے بھی شامل ہیں جن میں یوکرینی افراد کو خوفزدہ کرنے کے ساتھ ساتھ انفرا سٹرکچر کو بھی ہدف بنایا ۔
ایران ‘تشدد میں کمی کیلئے اقدامات’ کرے
امریکی محکمہ خارجہ نے منگل کے روز کہا کہ اگر ایران امریکہ کے ساتھ سفارت کاری کا موقع چاہتا ہے تو اسے اپنے جوہری پروگرام کو ’’ محدود کرنے والے اقدام ‘‘ اٹھانے ہوں گے اور اس کا آغاز بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی یا آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون سے ہوگا۔
حالیہ دنوں میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کی ایک بریفنگ میں یہ بیان دوسری بار دیا گیا ہے جس میں امریکہ نے ایران کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے کہ وہ آئی اے ای اے کے متعدد معائنہ کاروں کو ملک میں آنے کی اجازت نہیں دے گا اور اس طرح وہ اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کی جانب سے تہران کی جوہری سرگرمیوں کی نگرانی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر رہا ہے۔
امریکہ اور اس کے متعدد مغربی اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ ممکن ہے کہ ایران اپنے پرامن جوہری پروگرام کی آڑ میں جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہو۔ تاہم ایران اس سے انکار کرتا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ملر کا کہنا ہے کہ اگر ایران کشیدگی میں کمی کا خواہاں ہے اور سفارت کاری کا موقع چاہتا ہے تو اسے اپنے جوہری پروگرام میں کمی لانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔
ملر کا کہنا ہے کہ ابھی چند ہفتوں کے دوران ’’ ہم نے ایران کو ایسے اقدام کرتے دیکھا ہے جو اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے ادارے کے کام میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔‘‘
ملر نے مزید کہا کہ ’’ اگر ایران کشیدگی میں کمی کرنے والے اقدام کے لیے سنجیدہ ہے تو اس سلسلے میں پہلا کام یہ ہو گا کہ وہ آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کرے۔‘
ملر نے کہا کہ وہ امریکہ ایران مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کے لیے جن ابتدائی اقدامات کا ذکر کر رہے ہیں، ان کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ایران کے جوہری پروگرام سے ہے ۔ تاہم انہوں نے اس سلسلے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا ایسا کہنے سے ان کی مراد یہ ہے کہ ایران کے لیے یہ تمام اقدامات ضروری ہیں جس کے بعد ہی امریکہ ایران سے مذاکرات کے لیے راضی ہو گا ؟ اس کے جواب میں ترجمان ملر کا کہنا تھا: ’’وہ ایسا نہیں کہ رہے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کا جوہری ادارہ یا آئی اے ای اے یہ تصدیق کرنے کا پابند ہے کہ آیا ایران 2015 کے جوہری معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے جس کے تحت امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے اس پر عائد پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں اس جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور اسی معاہدے کو بحال کرنے کی کوششیں ایک برس پہلے ناکا م ہو گئی تھیں ۔ واشنگٹن تہران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے نئے طریق کار کی تلاش میں ہے۔