اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے نگراں وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی نے جمعرات کو تصدیق کی تھی کہ حکومت نے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امکان ہے کہ اس اقدام سے تقریباً 10 لاکھ افغان متاثر ہوں گے، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے دو سال قبل ہمسایہ ملک افغانستان میں سخت گیر طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں پناہ لی تھی۔
حکومتِ پاکستان کے اس منصوبےسے ان افغانوں پر اثر پڑ سکتا جنہیں بین الاقوامی تحفظ کی ضرورت ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ایک اہلکار نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کے دوران خبردار کیا کہ اگر انہیں زبردستی واپس بھیجا گیا تو ان کی زندگیاں یا آزادی خطرے میں پڑ جائے گی۔
اسلام آباد میں اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے وی او اے کو بتایا کہ ان کا ادارہ پاکستانی ہم منصبوں سے نئی پالیسی کے بارے میں وضاحت مانگ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں سے مہاجرین کی فراخدلانہ میزبانی کرنے والے ملک کے طور پر پاکستان کے کردار کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے، لیکن اس فراخدلی کو اس کی منزل تک پہنچانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے نگراں وزیرِ خارجہ نے بتایاتھا کہ کابینہ کی طرف سے منظور کردہ نئی پالیسی کا تعلق صرف افغانوں ہی سے نہیں بلکہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تمام لوگوں پر بھی اس کا اطلاق ہو گا جو پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ سرکاری طور پر رجسٹرڈ افغان مہاجرین اور قانونی طور پر رہنے والوں کو پاکستان چھوڑنے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔
قیصر خان آفریدی کہتے ہیں کسی بھی پناہ گزین کی واپسی رضاکارانہ ہونی چاہیے، بغیر کسی دباؤ کے تاکہ ان لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے جو تحفظ کے خواہاں ہیں۔
آفریدی نے مزید کہا کہ پناہ گزینوں کا ادارہ (یو این ایچ سی آر) اپنی سرزمین پر بین الاقوامی تحفظ کی ضرورت والے لوگوں کو منظم کرنے اور رجسٹر کرنے کے لیے ایک نظام تیار کرنے میں پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔
اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں واپس آنے تک، پاکستان نے سرکاری طور پر تقریباً ستائیس لاکھ افغانوں کی میزبانی کی۔ اس میں 13 لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین اور آٹھ لاکھ 80 ہزار وہ لوگ تھے جنہیں سرکاری طور پر معاشی تارکینِ وطن کی حیثیت دی گئی تھی جب کہ باقی مانندہ کو غیر قانونی تارکینِ وطن قرار دیا گیا تھا۔
کابل پر طالبان کے قبضے سے مہاجرین کی تازہ آمد کی لہر شروع ہوئی، جس میں سات لاکھ سے زیادہ افغان پاکستان آئے۔ایک اندازے کے مطابق ان میں سے دو لاکھ امریکی زیرِقیادت بین الاقوامی اتحادی افواج کے لیے اپنی خدمات کے واسطےدوبارہ آبادکاری کے خصوصی پروگراموں کے تحت امریکہ اور یورپی ممالک روانہ ہو چکے ہیں۔
پاکستانی حکام کے مطابق، باقی ماندہ افغانوں میں سے اکثر یا تو غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں یا ان کے ویزوں کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔
طالبان نے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں اسلامی قانون کی اپنی سخت تشریح نافذ کر دی ہے اور خواتین پر بہت زیادہ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول یا یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ زیادہ تر خواتین سرکاری ملازمین کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور خواتین امدادی کارکنوں کو انسانی ہمدردی کے گروپوں میں شامل ہونے سے منع کیا گیا ہے۔
خواتین عوامی مقامات، جیسے پارکس، جمز اور باتھ ہاوسز وغیرہ نہیں جا سکتیں ہیں اور سڑک پر طویل سفر کے لیے مرد سرپرست کی موجودگی کی ضرورت ہوتی ہے۔
بے گھر خاندان کے افراد کے مطابق، خواتین پر پابندیاں پاکستان میں پناہ لینے والے افغانوں کے لیے خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے لیے اپنے وطن واپس جانے میں ایک بنیادی رکاوٹ ہیں۔