برلن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے کہا ہے کہ جرمنی اپنے ہاں پناہ کے لیے آنے والے تارکین وطن کی آمد کی کوئی زیادہ سے زیادہ سالانہ حد مقرر نہیں کر سکتا۔ یوں انہوں نے صوبے باویریا کے وزیر اعلیٰ کی اس بارے میں تجویز رد کر دی ہے۔
یورپی یونین کے بہت سے دیگر ممالک کی طرح جرمنی میں بھی کافی عرصے سے مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کی آمد ایک بڑا داخلی سیاسی موضوع بنی ہوئی ہے۔ ایسے یورپی ممالک میں عوامیت پسند سیاست دان اور انتہائی دائیں بازو کی سیاسی سوچ کے حامل حلقے اپنے معاشروں میں بڑی تعداد میں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کے خلاف ہیں۔
اس موضوع پر اظہار رائے کرتے ہوئے جنوبی جرمن صوبے باویریا کے قدامت پسند جماعت کرسچن سوشل یونین سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ مارکوس زوئڈر نے ابھی حال ہی میں مطالبہ کیا تھا کہ جرمنی میں مہاجرین اور پناہ کے متلاشی تارکین وطن کی آمد کی سالانہ بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ تعداد کی ایک حد مقرر کی جانا چاہیے۔ انہوں نے تجویز دی تھی کہ یہ سالانہ تعداد دو لاکھ ہو سکتی ہے۔
مارکوس زوئڈر نے زور دیتے ہوئے کہا تھا، ”وفاقی چانسلر اولاف شولس کو ملک میں تارکین وطن کی آمد کو اپنی حکومت کی اولین ترجیح بنانا چاہیے۔چانسلر شولس کئی ہفتوں سے اس بارے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ لیکن اب انہیں اپنی قائدانہ ذمے داریوں کے تقاضے پورے کرتے ہوئے بالآخر کچھ کرنا ہی ہو گا۔ اس میں یہ پہلو بھی شامل ہے کہ وہ اپنی مخلوط حکومت میں شامل ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کو بھی اس بات کا قائل کریں کہ تارکین وطن کی زیادہ سے زیادہ آمد کی بھی ایک حد مقرر کی جانا چاہیے۔‘‘
وفاقی وزیر داخلہ کا انکار
وزیر اعلیٰ زوئڈر کے مطالبات کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ فیزر نے جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ”ہم جرمنی میں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ تعداد کی کوئی سالانہ حد مقرر نہیں کر سکتے کیونکہ دیگر ممالک کی طرح جرمنی پر بھی یورپی یونین کے قوانین اور بین الاقوامی ضابطوں کا اطلاق ہوتا ہے۔‘‘
نینسی فیزر نے کہا، ”ہم مہاجرین سے متعلق جنیوا کنویشن اور یورپی یونین کے انسانی حقوق کے کنوینشن کے احترام اور ان میں طے کردہ ضابطوں پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔‘‘
قدامت پسند سیاست دان زوئڈر کے بیانات کے برعکس وفاقی جرمن وزیر داخلہ نے واضح طور پر کہا، ”تارکین وطن کی آمد ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کا حقیقی معنوں میں مددگار ثابت ہونے والا کوئی بھی حل صرف ایک یورپی حل ہی ہو سکتا ہے۔‘‘