نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے مقامی نیوز پورٹل ‘نیوز کلک’ سے وابستہ صحافیوں کے دفاتر اور رہائش گاہوں سمیت تین درجن سے زائد ٹھکانوں پر منگل کو چھاپے مارے اور ان کے فونز اور لیپ ٹاپ سمیت متعدد الیکٹرانک آلات ضبط کر لیے۔
یہ چھاپے دہلی، نوائڈا، غازی آباد، گوڑگاؤں اور ممبئی کے مختلف علاقوں میں مارے گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کارروائی میں سینکڑوں پولیس اہلکاروں نے حصہ لیا۔
#WATCH | Delhi Police Special Cell ACP Lalit Mohan Negi reaches NewsClick office in Delhi.
Raids at different premises linked to NewsClick are currently underway at over 30 locations, no arrests made so far. pic.twitter.com/KezrcJes7A
— ANI (@ANI) October 3, 2023
نیوز کلک سے وابستہ جن صحافیوں کے گھروں یا دفاتر میں چھاپے مارے گئے ان میں ایڈیٹر پربیر پُرکایستھ کے علاوہ سینئر صحافی اور ویڈیو جرنلسٹ ابھیسار شرما، صحافی بھاشا سنگھ، اُرملیش، پرنجے گہا ٹھاکرتا، مصنف گیتا ہری ہرن، انندے چکرورتی، انسانی حقوق کے کارکن اور تاریخ داں سہیل ہاشمی اور آرٹسٹ اور اسٹینڈ اپ کامیڈین سنجے راجورا شامل ہیں۔
پولیس اہلکار پربیر پرکایستھ اور سنجے راجورا کو پوچھ گچھ کے لیے اپنے ساتھ اسپیشل سیل ہیڈ کوارٹرز لے گئے ہیں۔
پولیس نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ماونواز (سی آئی ایم) کے جنرل سیکریٹری سیتا رام یچوری اور انسانی حقوق کی کارکن تیستا سیتلواڈ کے گھروں پر بھی چھاپے مارے ہیں۔
ابھیسار شرما نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ” دہلی پولیس کے اہلکار میرے گھر آئے اور میرا فون اور لیپ ٹاپ لے گئے۔” صحافی بھاشا سنگھ نے بھی ایکس پر لکھا کہ پولیس کی جانب سے ان کا سیل فون ضبط کرنے سے قبل یہ ان کی آخری پوسٹ ہے۔
Delhi police landed at my home. Taking away my laptop and Phone…
— Abhisar Sharma (@abhisar_sharma) October 3, 2023
وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی کارروائی کو جائز ٹھہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کسی نے کچھ غلط کیا ہے تو ادارے طے شدہ گائیڈ لائنز کے تحت تحقیقات کرنے کے لیے آزاد ہیں۔
قبل ازیں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے 17 اگست کو نیوز کلک کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے قانون یو اے پی اے اور دیگر متعدد دفعات کے تحت ایف آئی درج کی تھی۔
نیوز کلک پر الزام ہے کہ اسے چین سے فنڈنگ ہوتی ہے اور اسے ایک ادارے سے 38 کروڑ روپے بھی ملے ہیں۔
دہلی پولیس کے ’اکانومک آفنسز ونگ‘ (ای او ڈبلیو) نے 2021 میں نیوز کلک کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا تھا۔ نیوز کلک نے اس وقت دہلی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر عدالت نے گرفتاری کے لیے حکمِ امتناع جار کر دیا تھا۔ یہ معاملہ اب تک عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔
واضح رہے کہ امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ نے اگست میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ نیوز کلک ان اداروں میں شامل ہے جسے امریکی ارب پتی نیویل رائے سنگھم سے تعلق رکھنے والے ایک نیٹ ورک سے پیسے ملتے ہیں۔ سنگھم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ چین کے لیے پروپیگنڈا کرتے ہیں۔
حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے ایک رکن نشی کانت دوبے نے سات اگست کو لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے ‘نیویارک ٹائمز’ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ راہل گاندھی سمیت دیگر کانگریسی رہنماؤں اور نیوز کلک کو بھارت مخالف ماحول سازی کے لیے چین سے پیسے ملے ہیں۔
محکمہ انکم ٹیکس کے حکام نے 2021 میں انکم ٹیکس ادا نہ کرنے کے الزام میں نیوز کلک کے دفاتر پر چھاپے بھی مارے تھے۔اس وقت پربیر پرکایستھ نے کہا تھا کہ مختلف ایجنسیوں کی جانب سے ان کے ادارے کے خلاف کی جانے والی تحقیقات اور چنیدہ الزامات نیوز کلک سمیت دیگر میڈیا اداروں کی آزادانہ صحافت کو کچلنے کی کوشش ہے۔
پولیس کی کارروائی کی مذمت
پریس کلب آف انڈیا، ممبئی پریس کلب اور ڈیجٹل نیوز کے ادارے ڈگی پب نیوز انڈیا فاؤنڈیشن (ڈی آئی جی آئی پی یو بی) سمیت متعدد صحافتی اداروں اور تنظیموں نے پولیس کی حالیہ کارروائی کی مذمت کی ہے اور اسے آزاد میڈیا کی آواز دبانے کے مترادف قرار دیا ہے۔
A spontaneous protest meeting was held at the Press Club of India against multiple raids on a number of journalists.
The meeting resolved to continue protest by several journalists bodies for defending media freedom. pic.twitter.com/StkNpENpG0
— Press Club of India (@PCITweets) October 3, 2023
پریس کلب نے ایک بیان میں اس کارروائی پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے کہا کہ ہم حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ پریس کلب اظہار یکجہتی کرتے ہوئے صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
پریس کلب آف انڈیا کے صدر گوتم لہری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سینئر صحافیوں کے خلاف کارروائی پر صحافی برادری کو حیرت ہے۔ جمہوریت میں ایسی کارروائی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے لیکن اس طرح صحافیوں کو پریشان کرنا مناسب نہیں۔حکومت کو بتانا چاہیے کہ کس جرم میں یہ کارروائی ہوئی ہے۔
ان کے بقول جن لوگوں کے خلاف کارروائی ہوئی ہے وہ حکومت کے خلاف بولتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی حکومت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے بہت سے صحافیوں کے خلاف کارروائی ہوئی ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے بھی اس کارروائی کی مذمت کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دہلی پولیس وزیر داخلہ امت شاہ کے ماتحت ہے اور ان کی مرضی کے بغیر یہ کارروائی نہیں ہو سکتی۔
کانگریس کے سینئر رہنما پون کھیڑا نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ اس کارروائی کا مقصد اہم مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔
سیتا رام یچوری نے کہا کہ پولیس اہلکارمنگل کی صبح ان کے گھر اس لیے آئے کہ ان کے ساتھ قیام پذیر ان کے ایک ساتھی کا بیٹا نیوز کلک میں کام کرتا ہے۔ وہ اس کا فون اور لیپ ٹاپ لے گئے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ پولیس کس بات کی جانچ کر رہی ہے۔ اگر اس کا مقصد میڈیا کی آواز کو دبانا ہے تو ملک کو اس کی وجہ معلوم ہونی چاہیے۔
راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے رکن پارلیمان منوج جھا نے اس کارروائی کو انتہائی افسوس ناک قرار دیا۔ انہوں نے صحافیوں کو پولیس کی جانب سے طلب کیے جانے پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ حکومت کو اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔ دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی پولیس کی کارروائی کی مذمت کی ہے۔
’انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن‘ کے صدر اپار گپتا نے ڈیجٹل آلات کی ضبطی کو تشویش ناک بتایا اور کہا کہ یہ قدم حکومت کے سابقہ رجحان کا عکاس ہے۔جب کہ بی جے پی کا کہنا ہے کہ پولیس کی یہ کارروائی قانون کے مطابق ہے۔
بی جے پی رہنما آر پی سنگھ نے کہا کہ جو لوگ غیر ملکی فنڈ حاصل کرتے اور ملکی مفادات کے خلاف کام کرتے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔