تہران (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) انسانی حقوق کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ سولہ سالہ طالبہ زیر زمین چلنے والی ٹرین میں سفر کر رہی تھی کہ اخلاقی پولیس نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے کو مہسا امینی کے واقعے کے مماثل قرار دیا جا رہا ہے۔
چند روز قبل ایک سولہ سالہ ایرانی طالبہ زیر زمین ٹرین میں بے ہوش ہوگئی تھی، انہیں بعد میں ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں وہ کوما میں چلی گئیں۔
کرد حقوق انسانی گروپ ہینگاو نے منگل کے روز کہا کہ ارمیتا گاروند کو حجاب پہننے سے انکار کرنے پر ایران کی اخلاقی پولیس کی خاتون افسران نے ان پر تشدد کیا۔
حکام نے تاہم دعویٰ کیا کہ وہ کم بلڈ پریشر کی وجہ سے بے ہوش ہو گئیں۔
ہم اس واقعے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
ہینگاو نے بتایا کہ گاروند پر اتوار کے روز تہران کے شہداء انڈر گراونڈ ریلوے اسٹیشن پر حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے انہیں متعدد زخم آئے۔
گروپ نے بتایا کہ تہران کے فجر ہسپتال میں انتہائی سخت سکیورٹی میں ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپ کا کہنا ہے کہ “متاثر ہ لڑکی سے کسی کو بھی ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے، حتی کہ اس کے اہل خانہ کو بھی نہیں۔”
ہینگاونے بتایا کہ اس لڑکی کا تعلق مغربی ایران کے کرد آبادی والے شہر کرمان شاہ سے ہے لیکن وہ تہران میں رہتی ہے۔
ہینگاو نے مزید بتایا کہ ایک مقامی خاتون صحافی مریم لطفی، جنہوں نے ہسپتال میں متاثرہ لڑکی سے ملاقات کرنے کی کوشش کی تھی، کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
A Photo of #ArmitaGarawand,
a 16-year-old girl and a victim of not observing hijab rules in the Tehran Metro’s ‘Shohada’ station.
According to the latest information, she is still in a coma at the ‘Fajr’ Air Force Hospital.
It is worth mentioning that a few days ago, Armita… pic.twitter.com/yAt1yJNsXY— Hengaw Organization for Human Rights (@Hengaw_English) October 3, 2023
ایرانی حکام کی جانب سے تردید
تہران کے زیرزمین ٹرینوں کے نظام کے مینیجنگ ڈائریکٹر مسعود درستی نے سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا سے بات کرتے ہوئے گاروند اور مسافروں یا میٹرو کے حکام کے درمیان کسی طرح کی زبانی یا جسمانی تصادم کی تردید کی ہے۔
انہو ں نے سی سی ٹی وی فوٹیج کا حوالہ دیتے ہوئے ان دعووں کی تردید کی کہ طالبہ پر حملہ کیا گیا تھا۔
یہ واقعہ بائیس سالہ مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی حراست میں مو ت کے واقعے کے تقریباً ایک سال بعد پیش آیا ہے۔ مہسا امینی بھی کرد تھیں۔
مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ملک گیر یپمانے پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، جسے سن 1979 میں ایران میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد سے ملک میں اسلامی رہنماوں کی حکمرانی کے لیے سب سے بڑے چیلنج کے طورپر دیکھا جاتا ہے۔