ماسکو (ڈیلی اردو/بی بی سی) روسی صدر ولادیمیر پوتن نے جوہری طاقت سے چلنے والے کروز میزائل کے ’حتمی کامیاب تجربے‘ کا دعویٰ کیا ہے۔
صدر کے ترجمان نے اخبار نیو یارک ٹائمز کی اس رپورٹ کو مسترد کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بیوروزنک نامی ہتھیار کی آزمائش ہونے جا رہی ہے۔ اس کے بعد صدر نے یہ بیان دیا۔
اس تجرباتی ہتھیار کا سب سے پہلے 2018 میں اعلان کیا گیا تھا۔ اسے یہ کہہ کر سراہا گیا تھا کہ اس کی ممکنہ طور پر لامحدود رینج ہے۔
خیال ہے کہ یہ جوہری ری ایکٹر سے چلتا ہے اور جوہری جنگی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
لیکن سرکاری طور پر اس کی صلاحیتوں کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ پچھلے ٹیسٹ ناکام ہوئے تھے۔
صدر پوتن کے بیان کی آزادانہ تصدیق نہیں ہوسکی جبکہ روسی وزارت دفاع کی جانب سے ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
تاہم گذشتہ ماہ گردش کرنے والی سیٹلائٹ تصاویر سے پتا چلتا ہے کہ روس نے حال ہی میں آرکٹک جزیرے کے ایک دور دراز مقام پر نئی تنصیبات تعمیر کی ہیں جہاں سوویت دور میں ایٹمی تجربات کیے جاتے تھے۔
ان تصاویر میں نووایا زیملیہ پر تعمیراتی کام دکھایا گیا جو کہ شمالی بحیرہ بیرنٹس کا ایک جزیرہ ہے۔
پوتن نے جمعرات کو سوچی کے بحیرہ اسود کے ریزورٹ میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے جدید قسم کے سٹریٹجک ہتھیاروں پر کام مکمل کر لیا ہے جس کے بارے میں، میں نے بات کی تھی اور جس کا چند سال پہلے اعلان کیا تھا۔‘
’بیوروزنک کا حتمی کامیاب تجربہ ہوا ہے۔ یہ عالمی رینج کا جوہری طاقت سے چلنے والا کروز میزائل ہے۔‘
نیٹو اتحاد نے اس میزائل کو سکائی فال کا نام دیا ہے جو جوہری ری ایکٹر سے چلایا جاتا ہے۔ ٹھوس ایندھن کے راکٹ بوسٹر اسے ہوا میں چھوڑ کر فعال کرتے ہیں۔
نیو یارک ٹائمز نے اسلحہ کنٹرول مہم کے گروپ نیوکلیئر تھریٹ انیشی ایٹو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2017 اور 2019 کے درمیان سسٹم کے پچھلے 13 ٹیسٹ ناکام رہے تھے۔
پوتن نے اپنے سامعین کو یہ بھی بتایا کہ سرمت نامی بین البراعظمی بیلسٹک میزائل پر کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔
اس واضح انکشاف کے باوجود پوتن نے کہا ہے کہ روس کا اپنے جوہری نظریے کو تبدیل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ یہ وہ پالیسی ہے جو ان حالات کا تعین کرتی ہے جن میں اس کی افواج جوہری ہتھیار استعمال کر سکتی ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ روسی ریاست کا وجود خطرے میں نہیں ہے اور ’صحیح دماغ اور واضح حافظے والا کوئی بھی شخص‘ اس کے خلاف جوہری حملے پر غور نہیں کرے گا۔
لیکن انھوں نے عندیہ دیا کہ روس نظریاتی طور پر 1996 کے نیوکلیئر ٹیسٹ پر پابندی کے معاہدے پر عملدرآمد روک سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح امریکہ نے دستخط کیے تھے لیکن کبھی اس کی توثیق نہیں کی، روس کا بھی ایسا کرنا ممکن ہے۔
سوچی میں اسی ملاقات کے دوران پوتن نے کہا کہ اگست میں ویگنر گروپ کے رہنما یوگینی پریگوزین کی ہلاکت کا طیارہ حادثہ ’بیرونی مداخلت‘ جیسے میزائل حملے کی وجہ سے نہیں ہوا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ہلاک ہونے والوں کے جسموں میں ’دستی بم کے ذرے‘ پائے گئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ نے دوسرے دن مجھے اس کی اطلاع دی۔‘
صدر نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ جہاز پر دستی بم کیسے پھٹ سکتا تھا لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں تفتیش کاروں کو لاشوں پر الکوہل اور منشیات کے ٹیسٹ کروانے چاہیے تھے۔
حادثے کی وجہ کے بارے میں ابھی تک کوئی سرکاری رپورٹ شائع نہیں ہوئی ہے۔