’افغانوں کی ملک بدری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہو گی‘، اقوام متحدہ

نیو یارک (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے) اقوام متحدہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان شہریوں کی زبردستی واپسی کا عمل معطل کیا جائے اور کسی بھی ممکنہ واپسی کو محفوظ، باوقار اور رضاکارانہ طریقے سے یقینی بنایا جائے۔

اقوام متحدہ نے آج سات اکتوبر بروز ہفتہ خبردار کیا ہےکہ پاکستان سے افغان باشندوں کو زبردستی ملک بدر کرنے سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو سکتی ہیں، جن میں خاندانوں کی علیحدگی اور نابالغوں کی ملک بدری شامل ہے۔ پاکستان نے حال ہی میں ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے والے تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا، جن میں 1.7 ملین افغان بھی شامل ہیں۔

انہیں کہا گیا ہے کہ وہ 31 اکتوبر تک اپنے آبائی ممالک کو لوٹ جائیں تاکہ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور بے دخلیوں سے بچا جا سکے۔ اسلام آباد حکومت افغانوں کو نشانہ بنانے کی تردید کرتی ہے اور کہتی ہے کہ اس کا ہدف غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم غیر ملکی ہیں، چاہے ان کی قومیت کچھ بھی ہو۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ایک ہاٹ لائن قائم کر رہے ہیں اور ایسے لوگوں کو انعامات کی پیشکش بھی کی جارہی ہے، جوغیر قانونی تارکین وطن سے متعلق اطلاع دیں۔ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے مطابق افغانستان شدید انسانی بحران سے گزر رہا ہے، جس میں انسانی حقوق کے حوالے سے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ طالبان نے چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ خواتین کے عوامی مقامات پر جانے اور بہت سی ملازمتوں پر پابندی بھی عائد کر رکھی ہے۔

اقوام متحدہ کی ان امدادی ایجنسیوں نے پاکستان کے کریک ڈاؤن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”اس طرح کے منصوبوں کے ان تمام لوگوں کے لیے سنگین مضمرات ہوں گے، جنہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے اور واپسی پر انہیں تحفظ کے سنگین خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے ملکی پالیسیوں پر پاکستان کے ”خودمختار استحقاق‘‘ کو تسلیم کیا اور کہا کہ وہ افغان شہریوں کے اندراج اور انتظامات میں مدد دینےکے لیے تیار ہیں۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم ) اور یو این ریفیوجی ایجنسی نے مطالبہ کیا ہے کہ ”افغان شہریوں کی زبردستی واپسی کا عمل معطل کیا جائے اور ملک میں کسی بھی ممکنہ واپسی کو محفوظ، باوقار اور رضاکارانہ طریقے سے یقینی بنایا جائے۔‘‘

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں گھروں کے مالکان کو نوٹسز موصول ہوئے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ وہ اس ماہ کے آخر تک ”غیر قانونی افغانوں‘‘ اور ان کے خاندانوں کو بے دخل کریں یا قانوی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ پولیس نے شہر کی کچھ مساجد کے علما سے کہا ہے کہ وہ نمازیوں کو ان کی ذمہ داری کے بارے میں بتائیں کہ وہ اپنے پڑوس میں افغانوں کے بارے میں اطلاع دیں۔

صوبہ بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا کہ سینکڑوں افغان خاندان رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑ کر سرحد پار کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکام نے افغان اور ایرانی باشندوں سمیت 100 سے زائد افراد کو حراست میں لیا ہے۔ افغانستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں اورطالبان کی زیر قیادت انتظامیہ نے اس کریک ڈاؤن پر تنقید کی ہے۔

1979-1989 کے سوویت قبضے کے دوران لاکھوں افراد کے افغانستان سے فرار ہونے کے بعد سے پاکستان افغانوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ اس صورتحال نے وہاں دنیا کی سب سے بڑی پناہ گزین آبادی کو جنم دیا۔ اگرچہ پاکستانی سکیورٹی فورسز اور پولیس نے حالیہ برسوں میں قانونی سفری دستاویزات کے بغیر ملک میں داخل ہونے والے افغانوں کو معمول کے مطابق گرفتار کر کے ملک بدر کیا ہے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ حکومت نے اتنے بڑے کریک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے۔

افغانوں کے خلاف کریک ڈاؤن مہم ایک موقع پر شروع کی گئی ہے جب پاکستانی طالبان یا ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹی ٹی پی کے افغانستان میں ٹھکانے ہیں اور پاکستانی حکام کے بقول وہ پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملے کرنے کے لیے باقاعدگی سے سرحد پار کر کے پاکستان آتے ہیں۔ پاکستان افغانستان میں طالبان حکام سے ٹی ٹی پی کی حمایت بند کرنے کا مطالبہ کر تا آیا ہے۔ ٹی ٹی پی افغان طالبان سے ایک الگ گروپ تو ہے لیکن یہ افغان طالبان کا اتحادی ہے۔ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پناہ گاہیں فراہم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں