واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/نیوز ایجنسیاں) محصور غزہ پٹی میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان امریکی ٹی وی نیٹ ورک ایم ایس این بی سی کے اپنے تین معروف مسلمان اینکرز کی ‘معطلی’ نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
حماس کے عسکریت پسندوں کی جانب سے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر اچانک حملہ کرنے کے بعد این بی سی کی ملکیت والے امریکی نیوز نیٹ ورک ایم ایس این بی سی نے تین ممتاز صحافیوں اور اینکرز مہدی حسن، علی ویلشی اور ایمن محی الدین کے شوز معطل کر دیے۔ اس اقدام کو ممکنہ طورپر مذہبی بنیادوں پرنشانہ بنائے جانے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
امریکہ سے سرگرم نیوز ویب سائٹ سیما فور کے مطابق ایم ایس این بی سی نے ہر جمعرات کو شیڈول مشہور نائٹ شو”دی مہدی حسن شو” کو نشر نہیں کیا جب کہ جمعرات اور جمعہ کو محی الدین کے شو کو اینکر کرنے کی ذمہ داری جوئے ریڈکو دے دی۔ اسی طرح سنیچر کے روز نشرہونے والے ویلشی کے شوکا اینکر بھی تبدیل کردیا گیا۔
حالانکہ ایم ایس این بی سی کی ملکیت والی کمپنی این بی سی کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں “اتفاقی ہیں۔ یہ تینوں اینکرز آن ایئر نظر آرہے ہیں اور تجزیہ بھی پیش کررہے ہیں۔”
معطلی کا سبب مبینہ فلسطین نواز موقف؟
تاہم ایسی قیاس آرائیاں ہیں کہ ان ممتاز صحافیوں کو ان کے مبینہ فلسطین نواز موقف کی وجہ سے ایم ایس این بی سی نے انہیں ذمہ داریوں سے معطل کیا ہے۔
مہدی حسن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کئی ٹوئٹ اور ری ٹوئٹ کیے تھے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔
Separate to the injustice & illegality of it, there is a fundamental racism to suggesting Gazans just up & move to Egypt & other Arab countries. Folks, Arabs aren’t all the same. No one asked Northern Irish Catholics to just relocate to France because they’re all white Europeans.
— Mehdi Hasan (@mehdirhasan) October 14, 2023
مہدی حسن نے اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ ‘یہ ناانصافی اور غیر قانونی ہونے سے ہٹ کر، غزہ کے باشندوں کو مصر اور دیگر عرب ممالک میں منتقل ہونے کا مشورہ دینا ایک بنیادی نسل پرستی ہے۔ لوگو! عرب سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ کسی نے بھی شمالی آئرش کیتھولکس کو فرانس صرف اس لیے منتقل ہونے کو نہیں کہا کیونکہ وہ تمام سفید فام یورپی ہیں۔‘
مہدی حسن کی ایک حالیہ پوسٹ، جس میں وہ بی بی سی ریڈیو کے ایک پریزینٹر کا مقابلہ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں اورغزہ کے باشندوں کے قتل کے لیے مشرق وسطیٰ اور اسرائیل میں تنازعات کو ہوا دینے کا الزام امریکہ پر لگا رہے ہیں، ایکس پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی۔
علی ویلشی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اپنی آخری پوسٹ میں بتایا تھا کہ وہ اسرائیل سے نکل گئے ہیں اور وہاں کی تازہ صورتحال جاننے کے لیے ان کے ساتھیوں کی کوریج کو دیکھتے رہیے۔
میڈیا اخلاقیات کی ‘خلاف ورزی’
ایم ایس این بی سی کے اس اقدام نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، جس میں ممکنہ مذہبی بنیاد پر ہدف بنائے جانے کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اس واقعے سے میڈیا کی اخلاقیات اور نیوز نیٹ ورک کے اینکرز کی ذاتی پسندیدگی سے قطع نظر منصفانہ اور معروضی رپورٹنگ پر بھی بحث چھڑ گئی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ایم ایس این بی سی کے ایک ذرائع کا کہنا تھا،” آگے کیا ہوگا اس بارے میں کافی کچھ غیر واضح ہے۔”
ذرائع کا مزید کہنا تھا،”لیکن موڈ بالکل اسی طرح کا ہے جو نائن الیون کے بعد ہوا تھا۔ آپ یا تو ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا، “افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ اب سیاسی نظر یات سے آگے نکل چکا ہے اور ایک خاص عقیدے کے اینکرز کو نشانہ بنارہے ہیں۔”
Yesterday the Israeli Prime Minister's office said that it had confirmed Hamas beheaded babies & children while we were live on the air. The Israeli government now says today it CANNOT confirm babies were beheaded. I needed to be more careful with my words and I am sorry. https://t.co/Yrc68znS1S
— Sara Sidner (@sarasidnerCNN) October 12, 2023
سی این این کی صحافی کی جھوٹے پروپیگنڈے کی تائید کرنے پر معافی طلبی
دریں اثنا امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی صحافی سارا سڈنر نے اپنے ایک بیان میں اسرائیلی دعوؤں کی تائید کرنے پر معافی مانگ لی۔
سارا سڈنر نے اسرائیلی دعوؤں کی بنیاد پر کہا تھا کہ حماس کے جنگجوؤں نے بچوں کو قتل کیا ہے۔
سارا سڈنر نے اپنے بیان میں کہا کہ میں نے اسرائیلی دعوؤں کے بعد بیان دیا تھا تاہم اب اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اسرائیلی بچوں کے قتل کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
سارا سڈنر کا کہنا تھا کہ مجھے اپنے گزشتہ روز کے بیان پر افسوس ہے۔