تہران (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) گزشتہ سال جینا مہسا امینی کی موت کی خبر دینے والی دو صحافیوں کو طویل قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اب ایک اور نوجوان خاتون اخلاقی پولیس کے ساتھ تصادم کے بعد کوما میں ہے۔
ایران کی دو ایوارڈ یافتہ صحافی، نیلوفر حامدی اور الٰہ محمدی، 2022ء کے موسم خزاں میں کرد خاتون جینا مہسا امینی کی موت کی خبر دینے والی اولین شخصیات میں شامل تھیں۔ اس کے بعد یہ خبر ایران بھر میں احتجاج کی ایک بڑی لہر کا سبب بنی۔ انہیں فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا اور ان پر امریکہ کے ساتھ تعاون، ریاستی سلامتی کے خلاف سازش اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہ جیسے الزامات عائد کیے گئے۔
ان مقدمات کی سماعت ان کیمرہ ہوئی اور کئی ماہ تک جاری رہی۔ دونوں صحافیوں کو اب مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں طویل قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ نیلوفر حامدی سات سال اور الٰہ محمدی چھ سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزاریں گے۔
معین خزائیلی تہران یونیورسٹی اور سویڈن کی مالمو یونیورسٹی سے قانون اور سیاسیات کے شعبے سے فارغ التحصیل ہیں اور فی الحال میڈیا امور کے قانونی ماہر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ”پہلے ان صحافیوں پر جاسوسی کا الزام لگایا گیا، حالانکہ ان کے آجر، دو ایرانی اخبارات نے بار بار واضح کیا کہ دونوں صحافیوں کو اس کیس کی کوریج کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔‘‘
ایک انتباہی سگنل
ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں حراست میں لیے جانے کے بعد مہسا امینی، جس ہسپتال میں کوما کی حالت میں داخل تھیں اُس ہسپتال سے ایران کے ایک معروف روزنامے شرق کے لیے نیلوفر حامدی رپوٹنگ کرتی تھیں۔
امینی کے انتقال کے بعد ایران کے شمال مغربی صوبے کردستان میں امینی کی آخری رسومات کی کوریج کے سلسلے میں روزنامہ ہم میہان کے لیے الٰہ محمدی وہاں پہنچی تھیں۔ اس کوریج کے بعد ہی ایران بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ مئی میں ان دونوں کو جیل میں بند کر دیا گیا۔ ان کی غیر حاضری میں اقوام متحدہ کی ثقافتی تنظیم یونیسکو نے ان دونوں صحافیوں کو اپنے ورلڈ پریس فریڈم پرائز سے نوازا تھا۔
اس انعام کے اعلان کے بارے میں ایک اور ایرانی خاتون صحافی مولود حاجیزادہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ”یہ اعلان میڈیا سے تعلق رکھنے والے ان تمام کارکنوں، جو سچ تلاش کرتے ہیں اور انتقامی کارروائیوں کے باوجود اپنا کام کرتے ہیں، ایک انتباہی اشارہ ہے۔ ‘‘
حاجیزادہ کو احتجاجی تحریکوں کی رپورٹنگ کرنے پر متعدد بار گرفتار کیا جا چکا ہے۔ جنوری 2021 ء میں، انہیں جب ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تب وہ اپنی سزا شروع ہونے سے پہلے ہی ایران سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی تھیں اور اب وہ ناروے میں رہتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایرانی حکام اپنے سیاسی نظام سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ صحافیوں کے ساتھ کتنی بے رحمی سے پیش آتے ہیں۔ صحافیوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال کر ان کی زندگیوں کو برباد کر دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، ”یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ دونوں صحافیوں کے خلاف فیصلہ اسی وقت سنایا گیا جب یہ خبر آئی کہ ارمیتا گراوند برین ڈیڈ ہو گئی ہے۔‘‘
اخلاقی پولیس پر نئے الزامات
16 سالہ اسکول کی طالبہ ارمیتا گراوند کی کوما میں جانے کی خبر نے اسلامی جمہوریہایران میں ایک بار پھر ہلچل مچا دی۔ ایک عینی شاہد نے برطانوی اخبار گارڈین سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گراوند پر 2 اکتوبر کو تہران میٹرو پر ایک خاتون ”اخلاقی پولیس‘‘ افسر، جو خواتین کے حجاب پہننے کی شرط کو نافذ کر رہی تھی، نے حملہ کیا تھا۔ گراوند اسکول جاتے ہوئے سر پر اسکارف نہیں پہنے ہوئے تھی۔ ایرانی حکام اس رپورٹ کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ گراوند بلڈ پریشر کم ہونے کی وجہ سے بیہوش ہو گئی تھی۔
نوجوانوں اور کھیلوں کی منسٹری سے منسلک ایرانی نیوز ایجنسی بورنا، نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ گراوند کی حالت ”حوصلہ افزا نہیں ہے، اور ڈاکٹروں کی کوششوں کے باوجود، وہ برین ڈیڈ ہے۔‘‘