کوئٹہ (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے/روئٹرز) پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین ملک بدری کے لیے دی گئی سرکاری ڈیڈ لائن قریب آنے پر شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ عالمی برادری کی طرف سے دباؤ کے باوجود پاکستانی حکام تا حال اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر رضامند نہیں۔
افغانستان کی ہزارہ شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے صدیق گزشتہ برسطالبان سے فرار حاصل کرنے کے بعد غیر قانونی طور پر پاکستان آ گئے تھے۔ پچیس سالہ اس افغان کو اب پاکستان بدر کیا جا رہا ہے۔ صدیق کا کہنا ہے کہ بالکل وہ پاکستان غیر قانونی طریقے سے ہی داخل ہوئے تھے لیکن ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد خواتین سمیت کئی نسلی و مذہبی گروپوں کو بھی تشدد کا سامنا ہے، جن میں ہزارہ نسل کی آبادی بھی شامل ہے۔
صدیق کے بقول طالبان نے انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ انہیں یقین ہے کہ اب افغانستان واپسی کا مطلب ان کی طالبان کے ہاتھوں موت ہو گی۔ صدیق نے رائٹرز کو بتایا، ”کابل واپس جانے کا مطلب ہے کہ میں قبرستان میں دفن ہونے جا رہا ہوں۔‘‘ صدیق اور ان کے گھر والے اشرف غنی کی سابق حکومت کے نہ صرف حامی تھے بلکہ اس دور میں سرکاری ملازمتیں بھی کرتے تھے۔
صدیق نے بتایا کہ طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد ان کے گھر والوں کو تلاش کیا اور پھر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ان کے پاس قانونی سفری دستاویزات نہیں لیکن انہیں اس طرح طالبان کے حوالے نہیں کیا جانا چاہیے۔
صدیق اکیلے ہی ایسے افغان مہاجر نہیں، جنہیں پاکستانی حکومت ملک بدر کر رہی ہے بلکہ ایسے لاکھوں افراد ہیں، جو افغان طالبان کے تشدد سے بچ کر پاکستان آئے تھے اور اب ان کا پرسان حال کوئی نہیں رہا۔ عالمی برداری اسلام آباد حکومت سے مطالبات کرتی آئی ہے کہ وہ افغان مہاجرین کی ملک بدری کا فیصلہ واپس لے لیکن ابھی تک کوئی امید افزا خبر سامنے نہیں آئی۔
یکم نومبر کی ڈیڈ لائن
رواں ماہ کے آغاز میں اسلام آباد حکومت نے پاکستان میں پناہ لیے ہوئے پندرہ لاکھ سے زائد افغان شہریوں سمیت تمام غیر قانونی مہاجرین کو ملک سے نکل جانے کے لیے یکم نومبر کی مہلت دی تھی۔ دوسری صورت میں انہیں ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔
کراچی میں مقیم افغان مہاجر صدیق نے کہا ہے کہ انہوں نے واپس وطن جانے کی کوئی تیاری نہیں کی کیونکہ ملک واپسی کا کوئی مستقبل ہے ہی نہیں۔ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ کراچی کی ایک مہاجر بستی میں رہتے ہیں۔
کیا افغان مہاجرین سکیورٹی رسک ہیں؟
پاکستان سے افغان مہاجرین کی اس طرح واپسی کو دونوں ہمسایہ ممالک کے باہمی تعلقات میں ایک نئی پستی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین ستمبر میں سرحدوں پر ہونے والی جھڑپوں کے بعد پاکستان نے غیر قانونی مہاجرین کو ملک سے نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
حکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ رواں برس پاکستان میں ہوئے درجن بھر خود کش بم حملوں میں افغان شہری ملوث تھے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ ریاست کے خلاف لڑنے والے جنگجو عناصر افغان سرحدوں کے پیچھے محفوظ پناہ گاہیں بنائے ہوئے ہیں۔ افغان طالبان کی خود ساختہ حکومت البتہ ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
پاکستان سے نکالے جانے والے افغان زیادہ تر اپنے آبائی علاقوں میں ہی بھیجے جائیں گے، جہاں اقوام متحدہ کے مطابق انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ بالخصوص ہزارہ کمیونٹی کو تو واپس افغانستان روانہ کرنے سے انہیں طالبان کے عتاب سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔
زبردستی ملک بدری ٹھیک نہیں، ترجمان طالبان
افغان طالبان نے بھی پاکستان کے اس متنازعہ منصوبے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے رائٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کو درپیش سکیورٹی خطرات کے لیے افغان ذمہ دار نہیں ہیں۔
سہیل شاہین کے بقول، ”اتنے مختصر نوٹس پر افغان مہاجرین کو زبردستی واپس کیسے بھیجا جا سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ خبریں بھی پراپیگنڈے پر مبنی ہیں کہ ان افغان شہریوں کی وطن واپسی پر انہیں طالبان سے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔‘‘
پاکستانی حکام کے مطابق باون ہزار افغان مہاجرین وطن واپس جا چکے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے جمعرات کے دن صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد کسی افغان مہاجر سے کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔
’طالبان کے اقتدارمیں خواتین کی توکوئی زندگی ہی نہیں‘
اس صورتحال میں صدیق کی اہلیہ لینا بھی ایک نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہو چکی ہے۔ وہ بھی ہزارہ شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ بھی کابل واپس نہیں جانا چاہتی۔
ماضی کو یاد کرتے ہوئے اس خاتون نے کہا کہ ایک وقت تھا، جب وہ یونیورسٹی جاتی تھی، صدیق کے ساتھ باہر گھومنے پھرنے جاتی تھی لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے اور طالبان کے افغانستان میں ان کا یا کسی بھی ذی شعور خاتون کا رہنا محال ہو چکا ہے۔
لینا نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ”پاکستان سے واپسی کے ساتھ ہی میرے ساتھ خواب ٹوٹ چکے ہیں۔‘‘ ان کے بقول افغانستان میں نہ تو وہ کوئی کام کر سکیں گے اور نہ ہی اپنی پڑھائی مکمل کر سکیں گی۔