پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ خیبر پختونخوا کی نگران حکومت کے مطابق قبائلی ضلع کرم کے ہیڈ کوارٹر پاراچنار اور اردگرد کے چند علاقوں میں زمین کے تنازع پر تصادم کے بعد جرگے کے ذریعے مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور جلد صورتحال پر قابو پا لیا جائے گا۔
نگران وزیر اطلاعات فیروز جمال شاہ کاکا خیل نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ضلع کرم اور پاراچنار میں حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس اور دیگر سکیورٹی حکام کو تعینات کیا گیا تھا تاہم ’مذاکرات اور جرگے کا راستہ کامیاب ہوا۔‘
فیروز جمال شاہ کاکا خیل کا کہنا تھا کہ حالات معمول قابو میں آنے پر موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بحال کر دی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پُرتشدد واقعات میں سات لوگوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔
اس سے قبل پاراچنار اور اردگرد کے چند علاقوں میں کشیدگی کے باعث ہلاکتوں کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔
کوہاٹ ڈویژن پولیس کے پی آر او فضل نعیم کے مطابق کوہاٹ میں گذشتہ تین چار روز سے حالات کشیدہ ہیں تاہم سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب دونوں گروپوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔
پولیس ترجمان نے بتایا تھا کہ ’اس وقت وہاں پر جنگ ہو رہی ہے۔ اس بڑے تصادم سے پہلے گاڑی پر فائرنگ سے دو افراد کے ہلاک جبکہ تین کے زخمی ہونے کی اطلاع بھی ملی تھی۔‘
ابتدائی اطلاعات اور مقامی لوگوں کے مطابق ’زمین کی ملکیت سے شروع ہونے والا جھگڑا فرقہ وارانہ تصادم میں تبدیل ہو چکا ہے۔‘
ڈپٹی کمشنر کرم کے کنٹرول روم میں موجود اہلکار کے مطابق ’اس وقت کئی علاقوں میں دو گروہوں میں جنگ ہو رہی ہے۔ پولیس اور انتظامیہ اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘ اہلکار کے مطابق ’پرتشدد تصادم میں متعدد ہلاکتوں کی اطلاعات بھی ہیں۔‘
ضلع کرم کے داخلی اور خارجی راستے بند ہیں۔ علاقے میں نیم فوجی دستوں کے اہلکار فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ انٹرنیٹ اور موبائل سروس بھی گزشتہ تین روز سے بند ہے۔ علاقے میں شدید تصادم کے باعث عام لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔
پولیس ترجمان فضل نعیم کے مطابق ’ڈی آئی جی کوہاٹ ڈویژن اور کمشنر پاراچنار علاقے میں پہنچ چکے ہیں۔ جہاں پر مزید پولیس نفری اور پیرا ملڑی فورس بھی طلب کر لی گئی ہے۔ علاقے میں امن و امان اور جنگ بندی کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘
مقامی لوگوں سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ضلع کرم کے علاقے لوئر کرم میں کشیدگی پائی جاتی ہے جہاں پر گزشتہ چار پانچ روز کے دوران کئی مرتبہ دونوں گروپوں میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ جس میں بھاری اسلحہ استعمال کیا گیا ہے اور وقفے وقفے سے دھماکوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔
سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب انتہائی شدید تصادم کا آغاز ہوا تھا۔ جس میں بلش خیل، خارکلے، بوشہرہ، کنج علیزئی، تری منگل، مقبل اور پارا چنار کے علاقوں میں متحارب گروپوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔
’فائرنگ اور دھماکوں سے بچے اور خواتین خوف کے عالم میں ہیں‘
ضلع کرم میں ہونے والا تصادم اب مختلف علاقوں میں بڑھتا جارہا ہے۔ بگن اورعلیزئی کے مقامی لوگ بھی ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہوچکے ہیں تاہم اس علاقے میں تاحال فائرنگ کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔
پاراچنار میں موجود ایک متاثرہ شخص کا کہنا تھا کہ صورتحال انتہائی گھمبیر ہے۔ سارے علاقے میں فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ بچے اور خواتین خوف کے عالم میں ہیں۔
’میرے بزرگ والد کی ادوایات ختم ہو چکی ہیں اور ہم باہر جا کر وہ بھی نہیں لاسکتے ہیں۔ کرفیو کا اعلان تو نہیں ہوا ہے مگر ہم باہر نہیں نکل سکتے ہیں۔ تمام مارکیٹیں اور دکانیں بند ہیں۔‘
پارا چنار سے تعلق رکھنے والے پشاور میں مقیم ایک سرکاری ملازم کے مطابق اس وقت لوئر کرم کا تقریباً سارا علاقہ ہی میدان جنگ بنا ہوا ہے۔
’دونوں گروپ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو چکے ہیں۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے گاؤں اور علاقوں پر بھاری اسلحے سے فائرنگ کی جا رہی ہے۔ جس سے عام لوگ بہت متاثر ہو رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس ساری صورتحال میں ہمارے اہل خانہ گھروں میں بند ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ اپنے کمروں سے بر آمدوں تک بھی نہیں آسکتے ہیں کہ فائر کی ہوئی گولیاں ہماری آبادی اور گھروں سے گزر رہی ہیں۔‘
’علاقے کے سارے بازار بند ہیں۔ اکثر گھروں میں ضروری اشیاء خوردونوش بھی ختم ہو چکی ہیں۔ علاقے میں موبائل فون اور انٹرنیٹ بند ہونے سے بھی لوگ انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے اہل خانہ سمیت کئی لوگ علاقہ چھوڑنا چاہتے ہیں مگر خارجی راستے بند ہونے اور ٹرانسپورٹ کے علاوہ پیٹرول، ڈیزل دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے وہ علاقہ بھی نہیں چھوڑ پا رہے ہیں۔ انتظامیہ اور حکومت کو چاہیے کم از کم وہ اتنا تو کرے کہ لوگ اگر علاقہ چھوڑنا چاہتے ہیں تو بحاظت چھوڑ سکیں۔‘
زمین کی ملکیت پر تنازع پرتشدد تصادم میں کیسے بدلا؟
مقامی افراد سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ضلع کرم میں چند ماہ سے کشیدگی جاری ہے۔ اس تصادم کا آغاز زمین کے ایک ٹکڑے کی ملکیت پر تنازعے سے ہوا تھا۔ اس حالیہ تصادم سے پہلے بھی کئی لوگ مارے جا چکے ہیں۔
زمین کی ملکیت پر تنازعے سے متعلق اس وقت ایک جرگہ بھی ہوا اور دونوں گروپوں کے درمیان فائر بندی ہوئی مگر بعدازاں یہ تنازع فرقہ واریت کی طرف بڑھتا گیا۔
جرگے میں ہونے والے معاہدے میں کہا گیا تھا کہ امن وامان کی صورتحال خراب کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جائے گی اور لوگ حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے۔ معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں 12 کروڑ روپے جرمانے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔
حالیہ تصادم کا آغاز ایک گروہ کی جانب سے دوسرے گروہ کے خلاف دھرنوں اور مظاہروں کے بعد ہوا ہے جس میں پہلے ایک مزدور کی ہلاکت ہوئی اور اس کے بعد ایک اور شخص اور پھر گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس کا الزام دونوں گروپوں نے ایک دوسرے پر عائد کیا۔
ضلع کرم میں فرقہ ورانہ فسادات اور لڑائیوں کی تاریخ طویل ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد اس خطے میں تقریباً ہر 10 سال کے بعد بڑے فسادات رونما ہوئے جس میں 1961، 1971، 1987، 1996 اور 2007 شامل ہے۔
سنہ 2007 میں شروع ہونے والے فسادات اپنی تاریخ کے بدترین فسادات کہے جاتے ہیں جو کہ 2010 اور 2011 میں بھی جاری رہے تھے۔
عمومی طور پر ان فسادات کا اختتام بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کے بعد قبائل کے مابین جرگوں کے ذریعے ہی سے ہوا تھا۔