اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) پاکستان کے نگراں وزیراعظم نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں کئی گناہ اضافہ ہوا ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ الزامات سے زیادہ اپنی غلطیوں کے ادراک کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے آج افغانستان کے حوالے سے کئی الزامات عائد کیے۔ انہوں نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی بے دخلی کو دہشت گردی کے خلاف اقدامات کا حصہ قرار دیا تاہم پاکستان میں کچھ حلقوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین و مبصرین نگراں وزیراعظم کےان بیانات پر تنقید کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان کو افغانستان پر الزامات لگانے کی بجائے اپنی غلطیوں کا ادراک کرنا چاہیے۔ تاہم چند دیگر کے خیال میں یہ الزامات کسی حد تک درست ہیں۔
نگراں وزیراعظم کے بیانات
اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان کو امید تھی کہ اگست 2021 ء میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد افغانستان میں طویل مدت کے لیے امن ہوگا اور پاکستان مخالف گروپس خصوصاً کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا اور یہ کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیا جائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا بلکہ دہشت گردی کے واقعات میں 60 فیصد اور خودکش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
وزیراعظم کاکڑ نے مزید کہا دو سال میں دو ہزار دو سو سٹرسٹھ پاکستانیوں کی دہشت گردانہ حملوں میں جانیں ضائع ہوئیں، جو تحریک طالبان پاکستان نے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے کیے۔ اس دوران ان حملوں میں 15 افغان شہریت رکھنے والے بھی ملوث پائے گئے اور اس کے علاوہ اب تک 64 افغان شہری دہشت گردی کے خلاف ہونے والے آپریشنز میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ ہلاک ہو چکے ہیں۔
وزیر اعظم کاکڑ نے انکشاف کیا کہ افغان حکومت کی طرف سے بار بار یقین دہانیاں کرانے کے باوجود تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اس کے برعکس کچھ ایسے شواہد ملے ہیں کہ کچھ واقعات میں ان دہشت گردوں کی معاونت کی گئی ہے۔
پاکستانی وزیراعظم کے یہ الزامات آج قومی دھارے کے ذرائع ابلاغ پر چھائے رہے۔ تاہم کئی ناقدین کے خیال میں پاکستان کو ان غلطیوں پہ غور کرنا چاہیے جو دہشت گردی کی پالیسی کے حوالے سے ان سے سر زد ہوئیں۔
سلامتی امور کے ماہر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفٰی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان نے حالیہ برسوں میں کچھ بڑی غلطیاں کی ہیں۔
پاکستان کی بڑی غلطیاں
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفٰی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” کچھ عرصے پہلے جب کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی بات ہوئی، تو ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں اور ان کے خاندان والوں کو بڑے پیمانے پر واپس پاکستان میں آباد کرنے کی پالیسی اپنائی گئی اور ان میں سے کئی کو پاکستان لایا بھی گیا۔‘‘
جنرل غلام مصطفٰی کے مطابق یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی ”کیونکہ حکام نے ان کی کوئی جانچ پڑتال نہیں کی اور نہ ہی اس پر نگاہ رکھی کہ وہ کن علاقوں میں گئے ہیں۔ اس پالیسی کی وجہ سے دہشت گردی نے ایک بار پھر سر اٹھایا اور پاکستان کو اب اس دہشت گردی کا سامنا ہے۔‘‘
الزام غیر منصفانہ ہے
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے دفاعی مبصر ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ افغانستان پر اس طرح الزامات لگانا مناسب نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کسے گفتگو کرتے ہوئے کہا،”سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا افغانستان پہ الزام نہ تو منصفانہ ہے اور نہ ہی یہ اس مسئلے کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کی مختلف حکومتوں کو اس کا کسی حد تک ذمہ دارٹھہرایا جا سکتا ہے لیکن پاکستانی حکومتوں اور ان کی پالیسیوں کو بھی برابر طور پر اس کا مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہیے۔‘‘
طلعت مسعود کا مذید کہنا تھا کہ پاکستان کا یہ المیہ ہے کہ یہاں کے ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتیں جمہوریت کو کمزور کر کے عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتی۔
غلطیوں کا تسلسل اور تاریخی تناظر
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردانہ حملوں کو تاریخی تناظر کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ اس حوالے سے ریاستی سطح پر پالیسی سازی میں بہت ساری غلطیاں ہوئی ہیں۔ سابق رکن قومی اسمبلی اور ایم کیو ایم کی رہنما کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ ہمیں ایسی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”الزام لگانے کی بجائے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہماری پہلی غلطی یہ تھی کہ قائد اعظم محمد علی جناح ایک معتدل ریاست چاہتے تھے جبکہ ہم نے اس کو ایک مذہبی ریاست بنا دیا۔ پاکستان کی دوسری غلطی افغان جہاد میں کودنا تھی۔‘‘
کشور زہرہ کے مطابق غلطیوں کا یہ تسلسل جاری رہا، ان کا مزید کہنا تھا، ”اور پھر ہم نے افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کو مختلف سمجھا حالانکہ یہ نظریاتی طور پر ایک ہیں اور پاکستانی طالبان افغان طالبان کے امیر المومینین کو ہی اپنا روحانی پیشوا مانتے ہیں۔‘‘
پاکستان میں خیال کیا جاتا ہے کہ سکیورٹی، خارجہ اور کئی دوسرے امور پر ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ حاوی ہے۔ کشور زہرہ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں اور ان کے خیال میں سکیورٹی پالیسی پر عوامی نمائندوں کی بے اختیاری بھی اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ”مثال کے طور پہ میں رکن قومی اسمبلی تھی اور مجھے نہیں پتہ کہ عمران خان کے دور میں طالبان سے کس طرح مذاکرات شروع ہوئے؟ کیسے ہوئے؟ اور ان کی شرائط کیا تھیں؟‘‘
تاہم کچھ مبصرین کاکڑ کے اس بیان سے اتفاق کرتے ہیں کہ افغان سرزمین ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اور یہ کہ افغان طالبان انہیں روک نہیں رہے۔ معروف پختون دانشور ڈاکٹر فرحت تاج کا کہنا ہے کہ دوحا معاہدے میں یہ بات واضح تھی کہ افغان طالبان کسی بھی دہشت گرد گروپ کو اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک یا امریکی اتحادی کے خلاف استعمال کرنے نہیں دیں گے لیکن ٹی ٹی پی پاکستان پر حملے کر رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” ٹی ٹی پی افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان پہ حملے کر رہی ہے۔ ٹی ٹی پی کی ان ہتھیاروں تک رسائی بھی ہے جو امریکی چھوڑ کر گئے ہیں۔‘‘
فرحت تاج کا دعویٰ ہے کہ ان ہتھیاروں میں 16 مشین گنز، حملے کے لیے استعمال ہونے والی رائفل، نائٹ ویژن گوگلز، کمیونیکیشن کے بہت سارے آلات اور بکتر بند گاڑیاں شامل ہیں۔
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی جاسوسی ایجنسیوں کی ناکامی بھی پیش نظر رکھنی چاہیے۔ بین الاقوامی امور کی ماہر ڈاکٹر طلعت اے وزارت کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں کئی دہشت گردانہ حملے ہوئے لیکن ہمیں پتہ ہی نہیں چل سکا۔ ”جاسوسی اداروں کو ان حملوں کی پیشگی اطلاع دینی چاہیے تھی یا پھر انہیں روکنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘‘