اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی بے دخلی کی حکومتی مہم کی وجہ سے 30 ہزار سے زائد مغربی ممالک جانے والے افغان بھی مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔
اگست دوہزار اکیس سےپاکستان میں مقیم تیس ہزار سے زائد یہ وہ افغان ہیں جنہوں نے مغربی حکومتوں، نیٹو، بین الاقوامی اداروں اور افغان حکومت کے لیے کام کیا تھا۔ ان افغان باشندوں کا شکوہ ہے کہ انہیں متعلقہ ممالک کے طرف سے خاطر خواہ معاونت نہیں مل رہی۔
افغان باشندوں کی مشکلات
ان افغانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے پہلے ہی فکر مند تھے اور بہت سی مشکلات کا شکار تھے ہی مگر حکومت کی طرف سے غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے خلاف بے دخلی کی مہم شروع ہونے کے بعد ان کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو نے ایسے ہی کچھ افغان باشندوں سے بات چیت کی، جنہیں حکومتی مہم کے باعث دشواریوں کا سامنا ہے۔ ان ہی میں سے ایک احمد خالد ہیں، جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اسلام آباد میں مقیم ہیں.احمد خالد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا, ”میں یہاں گزشتہ دو سال سے اپنے گھر والوں کے ساتھ رہ رہا ہوں اور میرے پاس کوئی روزگار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے بچے اسکول نہیں جا سکتے جبکہ ہمیں بینکنگ سسٹم کے حوالے سے بھی بہت زیادہ دشواریوں کا سامنا ہے۔‘‘
احمد خالد کا دعویٰ ہے کہ حکومت کی طرف سے ایسےافغان مہاجرین کو جو مغربی ممالک میں جانے کے لیے پاکستان میں رکے ہوئے ہیں، تنگ نہ کرنے کے نوٹس کے باوجود، جو مغربی ممالک میں جانے کے لیے پاکستان میں رکے ہوئے ہیں انہیں تنگ کیا جارہا ہے۔ ”نوٹس جاری ہونے کے باوجود مقامی پولیس اس نوٹس کو کسی خاطر میں نہیں لاتی اور وہ ہر طرح کے افغان کو گرفتار کر رہی ہے. جس کی وجہ سے ہم بہت ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ تنگ کرنے کا یہ عمل معمول بن چکا ہے۔‘‘
امریکہ سے شکوہ
احمد خالد نے شکوہ کیا کہ ان کو امریکہ جانا ہے اور امریکی حکومت نے ابھی تک کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ ” آخری رابطہ جو امریکی حکومت نے ہم سے کیا وہ 2022 ء میں تھا اور یہ کہا گیا کہ آپ کی فائل منظوری کے لیے بھیجی جا رہی ہے۔ اس کے بعد سے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا کہ ہم کب تک پاکستان میں رہیں گے اور کب تک ان مسائل کا سامنا کرتے رہیں گے۔‘‘
’صرف ایک خط جاری کیا گیا ہے‘
کابل سے تعلق رکھنے والے احسام الدین دلاور بھی اسلام آباد میں تقریباً دو سال سے مقیم ہیں اور انہوں نے طالبان کے قبضے سے پہلے امریکی حکومت کے لیے کام کیا تھا۔ احسام الدین دلاور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے لوگوں نے امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی اور دوسرے مغربی ممالک کے لیے درخواستیں دی ہوئی ہیں ان میں سے اکثریت امریکہ جانے والوں کی ہے۔‘‘
احسام الدین دلاور نے شکوہ کیا کہ ابھی تک امریکی حکومت نے صرف ایک خط جاری کیا ہے۔ ”اس خط کے ذریعے انہوں نے پاکستانی حکومت کو بتایا ہے کہ ان لوگوں کو قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد امریکہ لے جایا جائے گا اور یہ کہ ان کو تنگ نہ کیا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو تنگ کیا جا رہا ہے۔‘‘
پاکستان تعاون نہیں کررہا
پاکستانی حکومت نے ان افغان مہاجرین کو بے جا تنگ نہ کرنے کی سخت ہدایات دی ہیں لیکن احسام الدین دلاور کے مطابق کچھ افغان باشندوں کو پاکستانی حکام نے زبردستی افغانستان بھی بھیج دیا ہے۔ ” میں ذاتی طور پہ دو ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جن کو زبردستی افغانستان بھیج دیا گیا ہے جبکہ بقیہ لوگوں کو پکڑ کر پولیس رشوت کا مطالبہ کرتی ہے۔‘‘
احسام الدین دلاور کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت بھی کوئی زیادہ تعاون نہیں کر رہی اور وہ بھی اس خط کی قانونی حیثیت پہ سوال اٹھا رہے ہیں. ”پاکستانی حکومت کے اہلکار ہم سے مختلف طرح کے کاغذات مانگتے ہیں اور ہماری روزمرہ کی زندگی میں مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔‘‘
امریکہ کی طرف سے سہولیات میسرنہیں
احسام الدین دلاور کا دعویٰ تھا کہ برطانوی حکومت نے پھر بھی ان لوگوں کے لیے سہولیات پیدا کی ہیں، جو ان کے لیے کام کرتے تھے۔ ” لیکن امریکہ کی طرف سے ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ جنہیں برطانیہ جانا ہے وہ گیسٹ ہاؤسز میں رہ رہے ہیں اور ان کا کرایہ برطانوی حکومت دے رہی ہے جبکہ امریکہ جانے والے 25 ہزار کے قریب افغان مہاجرین اپنے خرچے پر کرائے کے مکانوں میں دو سال سے مقیم ہیں اور ان کو اپنے سارے اخراجات خود اٹھانے پڑ رہے ہیں. بے دخلی کی حالیہ مہم کے دوران وہ کوئی کام کاج بھی نہیں کر سکتے جن کی وجہ سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔‘‘
امریکی سفارت خانے کا موقف
ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے جب امریکی سفارت خانے کے ترجمان جوناتھن لیلے سے رابطہ کیا، تو انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” امریکہ ایسے افغانوں کے حوالے سے مسلسل پاکستانی حکومت سے رابطے میں ہے، جن کی امیگریشن کے حوالے سے ابھی کام جاری ہے۔ ہم ایسے افراد کی سکیورٹی کے لیے فکر مند ہیں۔ اسی لیے یہ ان دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں کہ ان افراد کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔‘‘
جوناتھن لیلے کا مزید کہنا تھا کہ ان افراد کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے امریکہ تمام اقدامات کر رہا ہے۔ ” ہم نے پاکستانی حکومت کے ساتھ ایسے افراد کی تفصیلات شیئر کی ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے خطوط بھی جاری کیے ہیں تاکہ وہ مقامی اتھارٹیز کو یہ دکھا سکیں اور اپنی شناخت کرا سکیں۔ امریکی حکومت نے ایسے افغانوں کے لیے ایک ہاٹ لائن بھی قائم کی ہے، جس پرانگریزی، پشتو اور دری میں معاونت اور معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔‘‘
برطانوی سفارت خانے کا موقف
اسلام آباد میں برطانوی سفارت خانے کے ہیڈ آف نیوز آصف اقبال کا کہنا ہے کہ اس طرح کے افغانوں کو منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ایسے افغانوں کو برطانیہ لے جانے کا عمل فلائٹس کے ذریعے جاری ہے۔ صرف وہ جو اس آباد کاری یا منتقلی پروگرام کا حصہ ہیں اور جن کے کاغذات منظور ہو چکے ہیں ان کی چارٹرڈ طیاروں کے لیے سیٹیں مختص کر دی گئی ہیں۔‘‘
الزامات کی تردید
حکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس طرح کے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان جان محمد اچکزئی، جن کی حال ہی میں افغان سفارت خانے کے حکام سے ملاقاتیں بھی رہی ہیں، کہتے ہیں کہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”وزیر اعظم انوار الحق کاکٹر پہلے ہی یہ واضح کر چکے ہیں کہ حکومت کے پاس وزارت داخلہ کے ذریعے پہلے سے ہی ایسے افراد کا ڈیٹا موجود ہے۔ تو ان الزامات کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایسے افغان کو نکالا گیا، جو مغربی ممالک جانے کا انتظار کررہا ہو۔‘‘