یوکرین کیلئے ہتھیاروں کی سپلائی: رائل ایئر فورس کے طیارے کی نور خان ایئر بیس سے ’خفیہ‘ پروازیں

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات مستقبل میں ’تاریخی بلندیوں‘ کو چھوئیں گے۔ جب سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے 12 اگست 2022 کو برطانیہ کی رائل ملٹری اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں اس امید کا اظہار کیا تو اُسی روز برطانیہ کا ایک فوجی مال بردار طیارہ راولپنڈی کے نور خان ایئر بیس پر اُترا۔

آئندہ آنے والے دنوں میں رائل ایئر فورس کا یہی طیارہ پانچ مرتبہ نور خان ایئر بیس آیا۔

ہر بار یہ طیارہ نور خان ایئربیس سے قبرص میں واقع برطانوی فوجی اڈے ’اکروتری‘ اور پھر وہاں سے رومانیہ جاتا رہا، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب رومانیہ کے پڑوسی ملک یوکرین میں روس نے جنگ چھیڑ رکھی تھی۔

اگست 2022: چند ’خفیہ‘ پروازیں اور لاکھوں ڈالر کے معاہدے

چند خبر رساں ادارے ماضی قریب میں یہ دعوے کر چکے ہیں کہ ’پاکستان یوکرین کو اسلحہ فروخت کر رہا ہے‘ لیکن اس متعلق ٹھوس شواہد آج تک سامنے نہیں آ پائے۔

حکومتِ پاکستان نے متعدد بار یوکرین میں پاکستانی اسلحے کی موجودگی کی تردید کی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ بلیک مارکیٹ سے ان ہتھیاروں کے یوکرین پہنچنے کے امکان کا بھی ذکر کیا۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے متعدد مرتبہ وضاحت کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان روس یوکرین تنازع میں مکمل طور پر ’نیوٹرل‘ ہے۔

مگر اس دوران جہاں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی یوکرین کو روس کے خلاف جنگ میں درکار اسلحے کی مانگ پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں وہیں بی بی سی کو کچھ ایسی دستاویزات تک رسائی حاصل ہوئی ہے جو چند سوالات کو جنم دیتی ہیں۔

بی بی سی کے پاس موجود دستاویزات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگست 2022 میں پاکستان نے دو پرائیویٹ امریکی ملٹری کمپنیوں کے ساتھ 364 ملین ڈالر کے اسلحے کی فروخت کے معاہدے کیے جس کے تحت ان کمپنیوں کو پاکستان کی جانب سے 155 ایم ایم گولے بیچے گئے۔

تاہم ان معاہدوں سے متعلق برطانیہ اور پاکستان میں برتی جانے والی رازداری ان پر سوالات کھڑے کرتی ہے۔ ’سوچ‘ نامی ایک فیکٹ چیکر نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے درحقیقت ان دو امریکی پرائیویٹ کمپنیوں کے ذریعے یوکرین کو ہتھیار بھیجے، ۔شاید اس لیے ان معاہدوں سے جُڑے بہت سے حقائق منظر عام پر نہیں آئے۔

بی بی سی کی تحقیق کے مطابق ’گلوبل ملٹری‘ اور ’نورتھروپ گرومین‘ نامی امریکی کمپنیوں نے 155 ایم ایم کے گولے خریدنے کے دو معاہدے پاکستان کے ساتھ کیے اور امریکہ کے فیڈرل پروکیورمنٹ ڈیٹا سسٹم سے حاصل کردہ معاہدوں کی تفصیلات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ:

* یہ ہتھیار پاکستان سے خریدے گئے

* دونوں معاہدوں پر 17 اگست 2022 کو دستخط ہوئے۔

* یہ معاہدے بالخصوص 155mm کے گولوں کے لیے تھے۔

* گلوبل ملٹری کے ساتھ 232 ملین ڈالر اور نورتھروپ گرومین کے ساتھ 131 ملین ڈالر کا معاہدہ ہوا تھا۔

* ان معاہدوں کی معیاد گذشتہ ماہ یعنی اکتوبر 2023 میں ختم ہوئی ہے۔

پاکستان کی وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کو اس متعلق سوالات بھیجے گئے مگر دونوں نے اس پر تبصرہ کرنے کے بجائے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے رجوع کرنے کو کہا۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے تاحال اس ضمن میں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

پاکستانی اسلحے کی برآمد میں ’تین ہزار فیصد اضافہ‘

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے شائع کردہ دستاویزات سے یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ مالی سال 2021-22 کی نسبت 2022-23 میں ملکی ہتھیاروں کی برآمدات میں تین ہزار فیصد تک اضافہ ہوا۔

پاکستان نے 22-2021 میں 13 ملین ڈالر کے ہتھیار برآمد کیے جبکہ 23-2022 میں یہ برآمدات 415 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔

لیکن کیا یہ ہتھیار یوکرین پہنچے اور اس اسلحے میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ نیٹو ملک کے پرائیویٹ کنٹریکٹرز نے پاکستانی ساخت کے اسلحے کا انتخاب کیا۔

پاکستان میں بننے والا 155 ایم ایم گولہ کیا ہے؟

دفاعی امور پر گہری نظر رکھنے والے سید محمد علی کے مطابق 155 ایم ایم کا گولہ بہت مقبول ہے اور یہ ماضی کی بہت سی جنگوں میں استعمال ہوا، چاہے وہ دونوں عالمی جنگیں ہوں، پاکستان انڈیا کی 1965 کی جنگ ہو یا 1967 کی عرب اسرائیل جنگ۔

ان کے مطابق اس گولے کی مقبولیت کی وجہ وہ توازن ہے جو یہ فاصلے اور نقصان کے اعتبار سے فراہم کرتا ہے۔ اس کے برعکس 105ایم ایم کا گولا اپنے کم وزن کے باعث شاید فاصلہ زیادہ طے کر سکتا ہو مگر وہ پھر اُتنا نقصان نہیں پہنچاتا۔ 200 پاؤنڈ وزنی 203 ملی میٹر دہانے کا گولہ اس کے برعکس نقصان زیادہ پہنچا سکتا ہے مگر وہ زیادہ فاصلہ طے نہیں کر سکتا۔

’ملٹری ہسٹری آف آرمرڈ کور‘ کے علاوہ سکیورٹی امور سے متعلق متعدد کتابوں کے مصنف اور پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ افسر میجر آغا ہمایوں امین کے مطابق 155 ایم ایم کا گولہ کافی موثر ہے اور یہ 45 کلومیٹر دور تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

ان کے مطابق عالمی جنگوں اور مختلف تجربات کے بعد یہ معلوم ہوا کہ 155ایم ایم دہانے والی توپ نقصان پہنچانے، رینج اور سیفٹی ڈسٹنس کے اعتبار سے سب سے مؤثر توپ ہے۔

اس گولے اور توپ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 30 سے زیادہ ممالک اس کو بنا رہے ہیں۔

پاکستان میں تیار کردہ اس گولے کا وزن 43 کلوگرام ہے اور یہ تقریباً 18 کلومیٹر فاصلے تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

155 ایم ایم گولے کی مانگ یوکرین میں کیوں اتنی زیادہ ہے؟

اس گولے کی مانگ کا اندازہ رواں سال یوکرین کی ایک پارلیمانی رکن کے اُس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ یوکرینی فوج ایک دن میں ان گولوں کے چھ سے آٹھ ہزار راؤنڈز فائر کر رہی ہے جبکہ روس تقریباً 40 ہزار راؤنڈز۔

امریکہ کے محکمہ دفاع کے مطابق جولائی 2023 تک وہ یوکرین کو 155ایم ایم گولے کے 20 لاکھ راؤنڈز بھجوا چکا تھا۔

دفاعی پیداوار سے متعلق چند جریدوں میں اس بات کا ذکر ہے کہ امریکہ کی 2022 میں 155ایم ایم گولوں کی ماہانہ پیداوار تقریباً 30 ہزار راؤنڈز تھی جسے اس سال ضروریات کو دیکھتے ہوئے بڑھایا گیا ہے۔

میجر (ر) آغا امین کے مطابق بھاری گولہ بارود کی پیداواری لاگت بہت زیادہ ہے جس کے باعث کئی ممالک اسے ضرورت کے وقت دوسرے ملکوں سے درآمد کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ویسے بھی اس قسم کی آرٹلری کا زیادہ تر استعمال جنگی حالت میں ہی ہوتا ہے۔

155 ایم ایم گولے یوکرین میں

یوکرین سکیورٹی اسسٹنس انیشیٹو یا یو ایس اے آئی امریکی محکمہ دفاع کا ایک فنڈنگ پروگرام ہے جو یوکرین کی روس کے خلاف دفاعی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہاں اس پروگرام کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ پاکستان کے یوکرین سے متعلق ’نیوٹرل‘ ہونے کے مؤقف پر سوالات اسی پروگرام کی ایک سرکاری دستاویز سے اٹھتے ہیں جس کے مطابق 364 ملین ڈالر مالیت کے 155 ایم ایم گولے یوکرین بھجوائے گئے ہیں۔

اس دستاویز کے مطابق اگست 2022 میں یوکرین کو 155ایم ایم کے گولے فراہم کرنے کے معاہدوں کا ذکر ہے جن کی مالیت 364 ملین ڈالر ہے۔ یاد رہے کہ گلوبل ملٹری اور نورتھروپ سے پاکستان کے اگست 2022 میں ہونے والے 155 ایم ایم گولوں کے دونوں معاہدوں کی مالیت بھی تقریباً 364 ملین ڈالر ہی ہے۔

پاکستانی حکام سے ان معاہدوں سے متعلق پوچھا گیا مگر تاحال ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ کیا پاکستانی ساخت کا اسلحہ یوکرین میں استعمال ہو رہا ہے؟ اس بارے میں جب یوکرین کی وزارت دفاع سے پوچھا گیا تو انھوں نے بھی اس موضوع پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔

تاہم رواں برس اپریل میں یوکرینی فوج کے ایک کمانڈر نے انھیں ملنے والے ’پاکستانی اسلحے کے غیرمعیاری‘ ہونے کا دعوی کیا تھا۔

یوکرین فوج کی 17 ٹینک بٹالین کے کمانڈر ولودیمیر نے بی بی سی کے دفاعی نامہ نگار جوناتھن بیل سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یوکرین اپنا گریڈ ایمونیشن ختم کر چکا ہے اس لیے اب دوسرے ممالک سے حاصل ہونے والے راکٹوں پر انحصار کر رہا ہے۔ اور اس ضمن میں یوکرین کی فوج کو ’چیک ریپبلک، رومانیہ اور پاکستان سے سپلائی آ رہی ہے۔‘

تب پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان یوکرین روس جنگ میں غیر جانبدار ہے اور اس نے یوکرین کو کسی قسم کا اسلحہ یا گولہ بارود سپلائی نہیں کیا ہے۔

البتہ دفاعی تجزیہ کار سید محمد علی کا ماننا ہے کہ امریکہ کو یوکرین اسلحہ بھیجنے کے لیے پاکستان سے یہ گولے خریدنے کا ’کوئی خاص فائدہ نہیں۔‘

ان کے مطابق پاکستان 155 ایم ایم کے جو گولے تیار کرتا ہے وہ اس کی اپنی دفاعی ضروریات اور توپوں کے مخصوص ڈیزائن کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ ’یوکرین کو جو توپیں امریکہ نے فراہم کی ہیں وہ جدید ساخت کی ہیں اور ان میں پاکستان کا بنا گولہ استعمال نہیں ہو سکتا اور اگر ہو بھی سکتا ہے تو اس اسلحے کو لانے لے جانے کے خرچے سے بہتر ہے کہ وہ کسی اور سے خرید لے۔‘

دوسری جانب میجر (ر) آغا امین نے دعوی کیا کہ ’یہ افواہ ہے کہ پاکستان نے 155ایم ایم کے گولے پولینڈ کے ذریعے یوکرین پہنچائے اور اس فروخت سے پاکستان نے ایک ارب ڈالر کمایا اور یہ اسلحہ پہنچانے کے لیے دو برطانوی C-17 گلوب ماسٹر جہازوں کا استعمال ہوا۔‘

ان دعوں سے متعلق انھوں نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے اور بی بی سی بھی ان کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔

رائل ایئر فورس کے طیارے کی نور خان ایئر بیس سے پانچ ’خفیہ‘ پروازیں

میجر (ر) آغا امین نے جس برطانوی طیارے کا ذکر کیا اس کا حوالہ کئی خبر رساں اداروں نے بھی یوکرین میں پاکستانی اسلحے کی سپلائی کے تناظر میں کیا ہے۔

بی بی سی نے پروازوں کی ٹریکنگ کرنے والی سویڈش ویب سروس ’فلائٹ ریڈار 24‘ کی مدد سے یہ پتا لگایا ہے کہ برطانیہ کی رائل ایئر فورس کا طیارہ C-17 (ZZ173) گلوب ماسٹر درحقیقت چھ سے 15 اگست 2022 کے دوران پانچ مرتبہ نور خان ایئر بیس پر اُترا۔

برطانوی ایئر فورس کا C-17 گلوب ماسٹر طیارہ فوجی نفری کے علاوہ ہر قسم کے جنگی اور امدادی سامان کو برق رفتاری سے اپنی منزل تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ 35 ہزار فٹ سے زیادہ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے تقریباً 45 ہزار کلو تک کا کارگو لے جانے کی اہلیت رکھتا ہے۔

اب دلچسپ بات یہ ہے کہ فلائٹ لاگ میں عموماً یہ درج ہوتا ہے کہ جہاز نے روانگی کہاں سے کی اور لینڈ کہاں کیا۔

البتہ اس مخصوص ZZ173 طیارے کی فلائٹ لاگ میں چھ سے 15 اگست تک روانگی اور آمد کے آگے کوئی مقام درج نہیں تھا۔ لیکن سی ایس وی ڈیٹا فائل میں دیے گئے کوارڈینیٹس کی مدد سے ہمیں ذیل میں دی گئی تفصیلات کا پتا چلا:

چھ اگست سے 15 اگست کے درمیان قبرص میں برطانیہ کے فوجی اڈے ’اکروتری‘ سے پاکستان کی نور خان ایئر بیس کے لیے ZZ173 طیارے کی پانچ پروازوں کا ریکارڈ موجود ہے

ان پروازوں کے لیے رائل ایئر فورس کا طیارہ C-17 گلوب ماسٹر ZZ173 استعمال ہوا۔

رائل ایئر فورس کے اس طیارے نے اکروتری سے رومینیا کے علاقے نوسلیک کے لیے بھی پانچ مرتبہ پرواز بھری اور ان پانچ کی پانچ پروازوں میں اس کا روٹ ایک ہی تھا۔

رومینیا کا علاقہ نوسلیک یوکرین کی سرحد سے تقریباً 250 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یاد رہے کہ نیٹو ممالک نے روس یوکرین جنگ میں رومانیہ کے کردار کو خوب سراہا ہے کہ کیسے انھوں نے امدادی سامان یوکرین تک پہنچانے میں مدد کی ہے۔

لیکن دوسری جانب روس کی وزارت خارجہ کی جانب سے گذشتہ سال 31 اگست کو رومانیہ پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ یوکرین کو ’انسانی امداد کی آڑ میں اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔‘

اس معلومات کے علاوہ بی بی سی یہ تصدیق نہیں کر سکا ہے کہ اس برطانوی جہاز میں کیا گیا اور اس متعلق جب برطانیہ کی وزارت دفاع سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے پروازوں کی تصدیق یہ کہہ کر کی کہ اتحادیوں کے درمیان عسکری پروازیں ایک معمول کا عمل ہے۔

لیکن جہاز میں موجود کارگو سے متعلق برطانیہ کی وزارت دفاع کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’سکیورٹی وجوہات کی بنا پر وہ کارگو یا مسافروں کی تفصیلات نہیں بتا سکتے۔‘

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق سال 2020 سے 2023 کے دوران صرف اگست 2022 ہی وہ ماہ تھا جب برطانیہ کو کسی بھی قسم کے بم یا گرینیڈ بیچے گئے۔ پاکستان نے اگست 2022 میں برطانیہ کو 2.9 ملین ڈالر کے ہتھیار یا انھیں تیار کرنے کے لیے استعمال ہونے والے پُرزے بیچے۔

اگست 2022 میں ہونے والے دو معاہدوں کا تو پتا چل گیا لیکن ان پانچ پروازوں میں کیا اور کیوں گیا اس کا سراغ نہیں لگ سکا۔ شاید آئی ایس پی آر کی جانب سے جواب موصول ہونے کی صورت میں کچھ معاملہ واضح ہو پائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں