تل ابیب (ڈیلی اردو) اسرائیلی فوج نے پیر کے روز اعلان کیا ہے کہ اس کے پاس ایسے “اشارے” ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ حماس کے جنگجوؤں نے غزہ کی پٹی میں بچوں کے ایک ہسپتال میں یرغمال بنائے گئے لوگوں کو قید کیا تھا جنہیں 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملے کے دوران اغوا کیا گیا تھا۔
فوج کے ترجمان ڈینیئل ہاگری نے ایک ویڈیو کلپ کی بنیاد پر کہا کہ شمالی غزہ کی پٹی میں الرنتیسی ہسپتال کے نچلے حصے میں اسرائیلی فوج کو ایسے شوہد ملے ہیں جن سے ہمیں یقین ہوتا ہے کہ حماس نے یہاں کچھ لوگوں کو یرغمال بنایا تھا۔ یہاں دودھ پلانے والی ایک بوتل، کرسی سے جڑا رسی کا ایک ٹکڑا ملا ہے۔انہوں نے کہا کہ فورسز کو ایک کمانڈ سنٹر ملا جس میں ہتھیاروں کا ایک ڈپو شامل ہے جس میں دستی بم، خودکش جیکٹ اور دیگر دھماکہ خیز مواد حماس کے جنگجوؤں کے رنتیسی ہسپتال کے تہہ خانے میں رکھا گیا تھا۔ یہ ہسپتال کینسر کےمریضوں کےعلاج کے لیے خاص سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں مزید کہا “ہمیں ایسے شواہد بھی ملے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حماس نے اس جگہ کو یرغمال بنا رکھا تجا ۔ اس کی فی الحال تفتیش جاری ہے لیکن ہمارے پاس انٹیلی جنس معلومات بھی ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں”۔ اس نے اس فوٹیج کو دکھایا جو قدیم رہائشی کوارٹر تھے، جس میں ایک چھوٹا باورچی خانہ بھی شامل تھا، ساتھ ہی ساتھ ایک قریبی سرنگ کا دھانہ بھی ہے، یہ سرنگ حماس کے ایک رہ نما کے گھر تک جاتی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ فورسز کو گولیوں سے متاثرہ ایک موٹر سائیکل بھی ملی جو بظاہر 7 اکتوبر کو حماس کے اچانک حملے کے بعد یرغمالیوں کو غزہ پہنچانے کے لیے استعمال کی گئی تھی۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اس حملے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 240 کے قریب یرغمال بنائے گئے تھے۔