لندن (ڈیلی اردو) بین الاقوامی تنظیم پین انٹرنیشنل کی 2022ء میں شائع ہونے والی سالانہ رپورٹ میں کم از کم ایسے 68 مصنفین اور صحافیوں کی نشاندہی کی گئی تھی جنہیں یا تو دھمکیاں دی گئیں تھیں یا مار دیا گیا تھا۔
بین الاقوامی تنظیم پین انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں مصنفین، صحافیوں اور پبلشرز کو غیر منصفانہ حکومتوں کی جانب سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سن 1921 میں لندن میں قائم ہونے والی مصنفین کی اس تنظیم نے یہ بیان بدھ کے روز ‘ڈے آف دی امپرزنڈ رائٹرز’، یعنی مقید مصنفین کے دن کے موقع پر ان صحافیوں اور مصنفین کے حالت زار کو اجاگر کرتے ہوئے دیا جن کو قید اور ظلم کا سامنا ہے۔
اس حوالے سے پین انٹرنیشنل نے بالخصوص کریمیا سے تعلق رکھنے والی صحافی ایرینا ڈینیلووچ، تبت سے تعلق رکھنے والے مصنف گو شیرابو گیاسو، مراکش سے تعلق رکھنے والے صحافی سلیمان رئیسونی اور کیوبا کی کرسٹینا گیریڈو روڈریگیز کا ذکر کیا۔
اس تنظیم نے خبردار کیا ان چار افراد کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔
جرمنی میں پین انٹرنیشنل سے وابستہ نجم ولی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، “جب تک ان (چاروں افراد) میں سے کوئی ایک آزاد نہیں ہوگا، کوئی آزاد نہیں ہوگا۔”
ان میں سے ایرینا نے کریمیا میں صحت کے شعبے سے منسلک مسائل اور بدعنوانی کے بارے میں لکھا، جس کے بعد ان کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دے دیا گیا اور دھماکہ خیز مواد استعمال کرنے کے الزام میں سات سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
اسی طرح تبت کے گو شیرابو، جنہوں نے چینی حکومت پر تنقید کی تھی، دس سال کی قید کاٹ رہے ہیں۔
مراکش کے سلیمان رئیسونی کو 2020ء میں جنسی تشدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ الزام غلط ہے اور سیاسی بنیادوں پر لگایا گیا ہے۔ ان کو پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
سلیمان رئیسونی کی گرفتاری کے دو سال بعد کیوبا میں شاعرہ اور ایکٹیوسٹ کرسٹینا روڈریگیز کو متعدد الزامات میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی۔
ان چاروں افراد کے بارے میں بات کرتے ہوئے نجم ولی کا کہنا تھا، “مصنفین مزاحمت کرتے ہیں، وہ انصاف اور آزاد معاشروں کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ اسی لیے ان پر ظلم کیا جاتا ہے، انہیں دھمکایا جاتا ہے، ان پر حملے کیے جاتے ہیں، انہیں قید کیا جاتا ہے، جلا وطن کیا جاتا ہے اور اکثر مار بھی دیا جاتا ہے۔”
پین انٹرنیشنل کی 2022ء میں شائع ہونے والی سالانہ رپورٹ میں کم از کم ایسے 68 مصنفین اور صحافیوں کی نشاندہی کی گئی تھی جنہیں یا تو دھمکایا گیا تھا یا مار دیا گیا تھا۔
قتل کیے گئے مصنفین اور صحافیوں کی تعداد کی بنیاد پر نجم ولی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آزادی رائے کو اس وقت سب سے زیادہ خطرہ میکسیکو میں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس قسم کے حالات اور رجحانات چین، روس، ترکی، شام، زمبابوے اور ایل سلواڈور میں بھی دیکھے گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ گو کہ اس حوالے سے ملکوں کی درجہ بندی کرنا مشکل ہے، ایران جیسی ریاست میں جہاں اس وقت عورتیں ایک مزاحمتی تحریک کی قیادت کر رہی ہیں، ان رجحانات کے “ہاٹ اسپاٹ” موجود ہیں۔