پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان میں اُسامہ بن لادن کے ٹھکانے کا کھوج لگانے میں امریکہ کی مدد کرنے پر قید ڈاکٹر شکیل آفریدی کے اہلِ خانہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کا حکم دیا ہے۔
جمعے کو پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس عبدالشکور اور جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل دو رُکنی بینچ نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اہلیہ کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔
دورانِ سماعت درخواست گزار کے وکیل عارف جان آفریدی نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی امریکہ کے لیے جاسوسی کرنے پر جیل میں قید ہیں۔ لیکن اُن کے بیوی بچوں کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بیوی، بچوں کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے ہیں۔ حالاں کہ اُن کے خلاف نہ تو کوئی جرم ثابت ہوا ہے اور نہ ہی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ درخواست گزار پرامن شہری ہیں اور ملکی قانون کے مطابق آزاد شہری کے طور پر بیرون ملک جا سکتے ہیں۔ لیکن ان کے نام بھی ای سی ایل میں ڈالے گئے ہیں۔
اس موقع پر عدالت میں موجود ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ نام سیکیورٹی ایجنسیوں کی رپورٹ پر ڈالے گئے ہیں۔ نگراں حکومت کے پاس ای سی ایل سے نام نکالنے کا اختیار نہیں ہے، کیوں کہ اس کے لیے باقاعدہ منظوری لی جاتی ہے۔
جسٹس عبدالشکور نے اس پر کہا کہ آپ کو سیکیورٹی ایجنسیز کہیں گی تو آپ ان کا نام لسٹ میں شامل کریں گے؟ یہ ان کا اختیار ہی نہیں ہے اگر کسی پر کوئی کیس نہیں تو کس طرح آپ لوگ ان کا نام ایگزٹ کنڑول لسٹ میں ڈال سکتے ہیں، یہ غیر قانونی ہے۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کے اہلِ خانہ کے نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے وفاقی حکومت کو ہدایات جاری کر دیں۔
‘تحریری فیصلہ نہیں ملا’
فیصلے کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بھائی جمیل آفریدی نے کہا کہ ابھی تک پشاور ہائی کورٹ کا تحریری فیصلہ نہیں ملا، جب تحریری فیصلہ ملے گا تو ہی حکومت کے ردِعمل کا پتا چلے گا۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کو 2011 میں پشاور کے علاقے کارخانو مارکیٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر امریکہ کے لیے جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا تھا، لیکن اُنہیں شدت پسند گروپ کی معاونت کے الزام میں ایف سی آر قوانین کے تحت پولیٹیکل ایجنٹ خیبر ایجنسی کی عدالت نے 33 برس قید کی سزا سنائی تھی۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا کے خلاف اپیلیں کئی برس تک فاٹا ٹربیونل میں زیرِ التوا رہی تھیں، تاہم فاٹا انضمام کے بعد یہ اپیل پشاور ہائی کورٹ منتقل کر دی گئی تھی جسے اب دوبارہ فاٹا ٹربیونل بھجوا دیا گیا ہے۔
رواں برس اگست میں خیبرپختونخوا کی نگراں حکومت نے تین رکنی فاٹا ٹربیونل کی بحالی کا باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا تھا جس کے بعد ڈاکٹر شکیل آفریدی سمیت 11 مقدمات کو پشاور ہائی کورٹ نے دوبارہ فاٹا ٹربیونل میں سماعت کے لیے بھیج دیا ہے۔