اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر چکوال میں مدرسے کے بچوں کے ساتھ مبینہ زیادتی کے الزامات کے بعد مذکورہ مدرسے کو سیل کر کے پولیس نے دو اساتذہ کو گرفتار کر لیا ہے۔
کیس کے تفتیشی اور متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او ملک اظہر کا کہنا ہے کہ ایک ملزم نے ابتدائی طور پر بچوں کو نامناسب انداز میں چھونے اور چھری سے بچوں کے جسم پر ‘Z’ کا نشان بنانا تسلیم کر لیا ہے۔ ملزم کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے اسے خوشی ہوتی تھی۔
پولیس کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق پولیس کو اطلاع دی گئی تھی کہ چکوال شہر کے قریب واقعہ جامعہ المصطفیٰ نامی مدرسے میں بچوں کے ساتھ مبینہ زیادتی کی گئی ہے۔
مدرسے کے ایک طالب علم کے مطابق ان سے نازیبا حرکات کی جاتی تھیں اور ایک استاد انہیں چھری سے ڈرانے دھمکانے کے ساتھ ساتھ ان کے جسم پر زیڈ کا نشان بھی بناتا تھا، پولیس نے اس اطلاع پر فوری کارروائی شروع کی اور 15 بچوں کو طبی معائنے کے لیے اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
یہ واقعہ گزشتہ ہفتے منظر عام پر آنے کے بعد وزیرِاعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے چکوال کا دورہ کیا اور متاثرہ بچوں اور ان کے والدین سے ملاقات بھی کی ہے۔
‘میرا بچہ اسکول جائے گا یا مدرسہ فیصلہ نہیں کیا’
“میرے بچے نے پہلی بار مجھے مدرسے میں ہونے والے سلوک کے بارے میں بتایا تو میں نے فوراً اس پر ایکشن لیا، میرا بیٹا اس واقعے کی وجہ سے بہت سہما ہوا تھا لیکن اب گھر والوں کی محبت اور ان مجرموں کے گرفتار ہونے کے بعد وہ خاصا پرسکون ہے۔”
یہ کہنا ہے مبینہ طور پر زیادتی کا شکار ہونے والے ایک طالبِ علم کے والد سلطان کا۔ اس واقعے کو سب سے پہلے سلطان منظر عام پر لائے تھے جب ان کے 13 سالہ بیٹے نے مدرسے کے دو اساتذہ کی طرف سے جنسی زیادتی کا انکشاف کیا جس کے بعد انہوں نے فوری طور پر پولیس کو آگاہ کیا اور اس کے نتیجے میں دو افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
متاثرہ بچے کے والد نے کہا کہ “ہم بہت پریشان ہیں کیوں کہ بچہ خاصا سہما ہوا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ اس ظلم اور زیادتی کے خلاف آواز بلند نہ کرتے۔ لیکن میں نے اس بارے میں بالکل نہیں سوچا کیوں کہ میں اپنے بچے پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا چاہتا تھا، میں اس بات سے مطمئن ہوں کہ پولیس نے میری شکایت پر فوری کارروائی کی اور دونوں ملزمان کو فوری گرفتار کیا جو اس وقت پولیس کے پاس جسمانی ریمانڈ پر ہیں۔”
اپنے بچے کے مستقبل کے حوالے سے سلطان کا کہنا تھا کہ “میں اسے کسی اور مدرسے میں داخل کراؤں گا یا پھر اسکول میں، اس بارے میں ابھی میں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ فی الحال ہمارا پورا خاندان ایک مشکل صورتِ حال سے گزر رہا ہے اور چاہتا ہوں کہ پہلے اس کیس کا کچھ انجام ہو۔”
‘بچوں کے جسم پر ‘زیڈ’ لکھنے سے خوشی محسوس ہوتی تھی’
چکوال کے تھانہ صدر میں تین مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا گیا ہے۔
تھانے کے ایس ایچ او ملک اظہر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مدرسے میں کل 68 بچے زیرِ تعلیم تھے جن میں سے 15 بچوں نے ایسی شکایات کی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مدرسے کے مہتمم کے مطابق بچوں کی طرف سے اساتذہ پر تشدد کی شکایات پر ان دونوں قاریوں، قاری ذیشان اور قاری انیس کو 11 نومبر کو فارغ کر دیا گیا تھا جس کے بعد یہ دونوں افراد راولپنڈی اور میانوالی چلے گئے تھے۔ لیکن پولیس میں شکایت درج ہونے کے بعد فوری کارروائی کی گئی اور دونوں کو ان کے علاقوں سے گرفتار کر لیا گیا۔
ملک اظہر کا کہنا تھا کہ ملزمان نے ابتدائی طور پر بچوں کو نامناسب انداز میں چھونے اور چھری سے اُن کے جسم پر ‘Z’ لکھنے کو تسلیم کیا ہے۔ ملک اظہر کا کہنا تھا کہ یہ ملزم کی ذہنی بیماری کو ظاہر کرتا ہے جو بچوں کے جسم پر اپنے نام کا پہلا حرف لکھ رہا تھا۔
ملک اظہر کے مطابق ملزم کا کہنا ہے کہ اسے ایسا لکھنے سے خوشی محسوس ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان ملزمان کے ڈی این اے حاصل کر لیے گئے ہیں اور بچوں کے بھی ڈی این اے حاصل کر کے فارنزک لیب بھجوا دیے گئے ہیں۔
ملک اظہر کا کہنا تھا کہ تفتیش کے دوران چار بچوں کے والدین نے میڈیکل کروانے پر آمادگی ظاہر کی تھی جن کے مختلف نمونے حاصل کر لیے گئے ہیں اور ڈاکٹرز کے مطابق آئندہ دو سے تین ہفتوں میں رپورٹ حاصل ہو سکے گی۔
ملک اظہر کا کہنا تھا کہ “ہم نے اس بارے میں مدرسہ منتطمین سے بھی بات کی ہے جن کا کہنا ہے کہ ہمیں بچوں سے مارپیٹ کی شکایات ملی تھیں لیکن بچوں سے جنسی زیادتی کی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی تھی جس کی وجہ سے ان دونوں قاری حضرات کو فارغ کر دیا گیا تھا۔”
تاہم پولیس کا اس حوالے سے دعویٰ ہے کہ منتطمین کو اصل شکایات کا پتا لگا تھا جس کے بعد دونوں قاریوں کو 11 نومبر کو ملازمتوں سے نکالا گیا اور پھر پولیس میں شکایت آنے پر انہیں گرفتار کیا گیا گیا ہے۔
‘تمام مدارس کو کہا ہے کہ شک بھی ہو تو قاری کو فارغ کر دیں’
مدارس میں ہونے والے ایسے واقعات سے متعلق وزیرِاعظم کے معاون خصوصی حافظ طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ یہ ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ “ایسے واقعات صرف مدارس نہیں بلکہ اسکولز میں بھی ہوتے رہے ہیں اور میرے خیال میں ان کو روکنے کا واحد حل یہ ہے کہ ایسے واقعات کے ذمہ داران کو سخت سزا دی جائے۔”
حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ ان واقعات کی مدارس میں روک تھام کے حوالے سے ہم نے ملک بھر کے مدارس کو لکھا تھا کہ ایسے تمام قاریوں کا مکمل ڈیٹا بنایا جائے جن کا نام اس قسم کے واقعات کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔
ان تمام افراد کا ڈیٹا مکمل کر کے تمام مدارس میں تقسیم کیا جائے تاکہ انہیں کوئی بھی ملازمت پر نہ رکھ سکے اور اگر کسی شخص کا نام محض شک کی بنیاد پر بھی ہے تو اسے فوری طور پر ملازمت سے برخاست کیا جائے۔