بھارتی ریاست اتر پردیش میں حلال اشیا کی فروخت پر پابندی

نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) ریاستی حکومت کے حکم کے مطابق حلال سرٹیفکیٹ والی ادویات سمیت دیگر مصنوعات کے ذخیرہ کرنے، تقسیم کرنے، خرید و فروخت کرنے پر پابندی ہے اور ایسا کرنے والے فرد یا کمپنی کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

بھارتی ریاست اتر پردیش کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے ریاست میں حلال سرٹیفکیٹ والی مصنوعات کی پیداوار، ذخیرہ کرنے، تقسیم کرنے اور فروخت کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔

ریاست میں فوڈ سیفٹی اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ایڈیشنل چیف سیکرٹری انیتا سنگھ نے اس کا اعلان کرتے ہوئے ہفتے کے روز ایک نوٹیفکیشن جاری کیا۔

کمشنر انیتا سنگھ کا کہنا تھا کہ ڈیری مصنوعات، چینی، بیکری کی اشیاء، پیپرمنٹ آئل، خوردنی تیل اور نمکین جیسی کھانے پینی کی بعض اشیا پر حلال سرٹیفیکیشن کا ذکر کیا جاتا ہے اور بہت سی ایشیا پر اس طرح کا لیبل بھی لگا ہوا ہوتا ہے۔

انہوں نے اس پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ”کھانے کی مصنوعات پر حلال سرٹیفیکیشن ایک متوازی نظام تھا، جس نے الجھن کی صورت حال پیدا کی اور یہ مذکورہ قوانین کے بنیادی مقصد کے بالکل خلاف ہے۔‘‘

البتہ حکومت نے اپنے اعلان میں ان حلال اشیا کو اس پابندی سے الگ رکھا ہے، جنہیں بیرون ملک سے درآمد کر کے بازار میں فروخت کیا جا رہا ہے اور ان پر پہلے سے ہی حلال کا لیبل لگا ہوا ہے۔

پابندی سے پہلے ایف آئی آر

اس حوالے سے ریاستی دارالحکومت لکھنؤ کے حضرت گنج پولیس اسٹیشن میں بعض تنظیموں، پروڈکشن کمپنیوں، ان کے مالکان اور ان کے مینیجرز کے خلاف حلال سرٹیفیکیشن کے نام پر رقم حاصل کرنے کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی، جس کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے اس پابندی کا اعلان کیا۔

یہ ایف آئی آر شیلیندر کمار شرما نامی ایک شخص نے درج کرائی، جن کا ان کمپنیوں پر بغیر کسی اختیار کے حلال سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا الزام ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کمپنیاں مذہب کے نام پر، ”ملک میں عناد، علیحدگی پسندی اور دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ بھی کرتی ہیں۔‘‘

اس ایف آئی آر میں جن لوگوں کو ملزم بنایا گیا ہے، اس میں چینئی کی حلال انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ، دہلی کی جمعیۃ علمائے ہند حلال ٹرسٹ، حلال کونسلنگ آف انڈیا اور ممبئی کی جمعیت علمائے سمیت بعض نامعلوم لوگوں کے نام شامل ہیں۔

اس دوران جمعیت علمائے ہند کے ‘حلال ٹرسٹ‘ نے ان الزامات کو ”بے بنیاد‘‘ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد اس کی شبیہ کو ”داغدار‘‘ کرنا ہے۔ تنظیم نے کہا کہ اس حوالے سے غلط معلومات کے سدباب کے لیے ضروری قانونی اقدامات کیے جائیں گے۔

جمعیت کا کہنا ہے کہ اس کے سرٹیفیکیشن کا عمل بھارت میں برآمدگی گئی اور گھریلو اشیاء دونوں کے لیے ضرورت کے مطابق ہے اور یہ کہ وہ اس حوالے سے حکومتی ضوابط کی پاسداری کرتا ہے۔

حلال مصنوعات اقتصادی جہاد ہے، بی جے پی

حالیہ مہینوں میں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور سری رام سینے جیسی متعدد شدت پسند ہندو تنظیمیں حلال مصنوعات کے بائیکاٹ کی حمایت میں پوری شدت کے ساتھ میدان میں آئی ہیں۔

گزشتہ برس بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری سی ٹی روی نے بھی ان تنظیموں کی حمایت کرتے ہوئے حلال اشیاء کے استعمال کو اقتصادی جہاد قرار دیا تھا۔

روی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ”حلال ایک اقتصادی جہاد ہے، اگر ہندو یہ کہتے ہیں کہ انہیں حلال کھانا پسند نہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟ کیا مسلمان کسی ہندو سے گوشت خریدیں گے؟ پھر آخر یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ ہندوؤں کو مسلمانوں سے گوشت خریدنا چاہئے؟‘‘

گزشتہ برس ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ ہندو جن جاگرتی سمیتی نے ہندوؤں سے اپیل کی تھی کہ اوگاڑی یا سال نو کے تہوار کے موقع پر حلال گوشت نہ خریدیں۔ اوگاڑی کا تہوار بہار میں منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ہندو بڑی مقدار میں بالخصوص بکرے کا گوشت استعمال کرتے ہیں، جو عام طور پر مسلمانوں کی دکانوں پر دستیاب ہوتا ہے۔

ہندو جن جاگرتی سمیتی کے ریاستی ترجمان موہن گوڑا نے مسلمانوں کے خلا ف مہم کو ہوا دیتے ہوئے ہندوؤں سے اپیل کی تھی کہ وہ حلال گوشت فروخت کرنے والے مسلمانوں کی دکانوں سے خریداری نہ کریں۔

ان کا کہنا تھا، ”ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ حلال مصنوعات کے فروخت سے ہونے والی آمدنی کا استعمال دہشت گردی اور ملک دشمن سرگرمیوں میں کیا جا رہا ہے۔ حلال مصنوعات خریدنا ملک دشمن سرگرمیوں کی حمایت کے مترادف ہے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں