کوئٹہ (ڈیلی اردو) نگران وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی نے کہا ہے کہ ہم دہشت گردی کا منہ توڑ جواب دینا جانتے ہیں، اگر بار بار کی تنبیہ کے باوجود یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو ہم دہشت گردوں کے ٹھکانوں میں گھس کر انہیں سبق سکھائیں گے۔
کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جان اچکزئی نے کہا کہ ہم نے 40 سال سے زائد عرصے سے افغان بھائیوں کو پناہ دے رکھی ہے، لیکن اس کے بدلے دہشت گردوں اور دہشت گردی کی حوصلہ شکنی کے بجائے انہیں بلاروک ٹوک دہشت گردی کے اڈے اور جدید ہتھیار ملنا باعث تشویش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے اپنے مطالبات افغان طالبان کے سامنے رکھ دیے ہیں، ہم بار بار واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کا مخالف ہے اور اس کی مذمت کرتا ہے۔
نگران وزیر اطلاعات بلوچستان نے کہا کہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کاروں کا جرم برابر ہے، ہم دہشت گردی کا منہ توڑ جواب دینا جانتے ہیں، اگر بار بار کی تنبیہ کے باوجود یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو ہم دہشت گردوں کے ٹھکانوں میں گھس کر انہیں سبق سکھائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی موجودہ قیادت اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی قیادت میں بلوچستان کے عوام دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاک فوج کی تمام کوششوں میں ان کے ساتھ ہیں، اور اپنے بہادر جوانوں کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو اسلحہ فراہم کیا گیا ہے، طالبان کے نچلی سطح کے کمانڈر ان کے ساتھ ہیں، 31 اکتوبر کو ژوب کے واقعے میں بھی 6 افغان دہشت گرد ملوث تھے، اسی طرح خود امریکی کانگریس نے بھی کہا ہے کہ افغان طالبان نے اسلحہ اپنے فرنچائز کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حوالے کیا ہے، اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ انٹیلی جنس رپورٹس صحیح ہیں۔
خیال رہے کہ بلوچستان کے ضلع ژوب کے علاقے سمبازا میں سیکیورٹی فورسز نے خفیہ اطلاع کی بنیاد پر کارروائی کرکے 6 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تھا، آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ مارے گئے دہشت گردوں کے قبضے سے اسلحہ، بارود اور دھماکا خیز مواد برآمد کرلیا۔
ان کا کہنا تھا کہ دفتر خارجہ پاکستان ان کے ساتھ رابطے میں ہے، اسی طرح انخلا کے عمل پر بھی دونوں بارڈرز (چمن، طورخم) پر رابطہ جاری ہے، لیکن اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کرنا افسوس ناک ہے۔
چمن میں دھرنے سے متعلق سوال کے جواب میں جان اچکزئی نے کہا کہ چمن میں آج جزوی طور پر ٹریفک معطل رہی ہے، لیکن ٹرانزٹ ٹریڈ کے ٹرکس آج بھی روانہ ہوئے اور بے دخلی کا عمل بھی جاری رہا، اگر دھرنے والے قانون کو ہاتھ میں نہیں لیتے تو ہمیں ان کے احتجاج پر کوئی مسئلہ نہیں ہے، ان کی ٹیم اسلام آباد بھی گئی ہے اور مذاکرات ہی اس مسئلے کا حل ہیں، کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کے لیے انتخابات کی مہم ہے، کوئی بھی ایشو ہو، آپ کو پتا ہے کہ وہ سیاست کے لیے استعمال ہوتا ہے، لیکن ہم کوئی بھی سیاسی جماعت، گروپ کا کوئی دباؤ نہیں لیں گے، ہم نے اپنے قومی مفاد میں فیصلے کرنے ہیں، ہم نے الیکشن میں جانا ہے اور نہ ووٹ لینے ہیں، لہٰذا ایک ہی معیار ہے کہ ملک کے مفاد میں جو بھی فیصلہ ہو گا، ہم وہ کریں گے۔
واضح رہے کہ بلوچستان ایک عرصے سے دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور اکثر بم دھماکے اور دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں جس میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ مذہبی و سیاسی رہنماؤں اور عام عوام تک کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
گزشتہ روز بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل ہوشاب میں دھماکے سے گاڑی میں سوار 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اسی طرح گزشتہ ماہ کوئٹہ میں پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے پروجیکٹ منیجر کی گاڑی کو سڑک کنارے نصب بم سے نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں منیجر ہلاک اور ڈرائیور شدید زخمی ہو گئے تھے۔
سب سے بڑی دہشت گردی کی کارروائی 29 ستمبر کو کی گئی تھی، جب مستونگ میں 12 ربیع الاول کے جلوس میں دھماکے کے نتیجے میں ڈی ایس پی پولیس سمیت 50 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اس واقعے سے کچھ عرصہ قبل ضلع مستونگ میں ہی ہونے والے ایک اور دھماکے میں جے یو آئی (ف) کے سینئر رہنما حافظ حمداللہ سمیت 11 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
اس سے قبل گزشتہ سال بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں سینیٹر سرفراز بگٹی کے کزن سمیت 4 افراد ہلاک اور لیویز اہلکاروں سمیت 10 افراد زخمی ہوگئے تھے۔