پیونگ یانگ (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز/ڈی پی اے) شمالی کوریا نے جاپان کو بتایا ہے کہ وہ 22 نومبر اور یکم دسمبر کے درمیان ایک سیٹلائٹ لانچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جنوبی کوریا کی بندرگاہ بوسان پر امریکی طیارہ بردار بحری جہاز پہنچنے کے بعد یہ اعلان سامنے آیا ہے۔
جاپان کی حکومت نے منگل کے روز بتایا کہ شمالی کوریا نے اسے مطلع کیا ہے کہ وہ بحیرہ زرد اور مشرقی چین کے سمندر کی سمت میں ایک فوجی سیٹلائٹ لے جانے والا راکٹ لانچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
رواں برس کے آغاز پر دو ناکام کوششوں کے بعد جاسوسی سیٹلائٹ کو مدار میں بھیجنے کی اس کی یہ تیسری کوشش ہے۔ اسے 22 نومبر اور یکم دسمبر کے درمیان کسی بھی وقت لانچ کیے جانے کا امکان ہے۔
شمالی کوریا نے یہ اعلان ایک ایسے وقت کیا ہے جب امریکی طیارہ بردار بحری جہاز کارل ونسن جنوبی کوریا کی بندرگاہ بوسان پہنچا ہے۔ یہ جہاز پیونگ یانگ کے میزائل خطرات کے خلاف تیاری میں اضافے کے لیے یہاں بھیجا گیا ہے۔
جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیدہ کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا اور امریکہ جیسے شراکت داروں کے ساتھ مل کر جاپان اس پر اپنے رد عمل کے بارے میں غور کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کا استعمال اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہو گی۔
شمالی کوریا کا سیٹلائٹ منصوبہ
گزشتہ ستمبر میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے غیر معمولی دورہ روس کے بعد سیٹلائٹ روانہ کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے۔ روس میں انہوں نے ایک جدید خلائی لانچ سینٹر کا دورہ کیا تھا، جہاں روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا تھا کہ وہ پیونگ یانگ کو سیٹلائٹ کی تیاری میں مدد فراہم کریں گے۔
شمالی کوریا چونکہ امریکی اور جنوبی کوریا کے فوجیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا چاہتا ہے، اس مقصد کے لیے وہ ایک فوجی جاسوسی سیٹلائٹ کو مدار میں بھیجنا چاہتا ہے۔
شمالی کوریا نے سن 2006 میں اپنے جوہری ہتھیاروں کا پہلا تجربہ کیا تھا، جس کے رد عمل میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس کے خلاف متعدد قراردادیں منظور کیں، جن میں اس سے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگراموں کو روکنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
رواں ہفتے کے اوائل میں شمالی کوریا نے امریکہ کی جانب سے جاپان اور جنوبی کوریا کے لیے سینکڑوں میزائلوں کی ممکنہ فروخت کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔
شمالی کوریا نے اس سے قبل بھی ’’نگران‘‘ سیٹلائٹ لانچ کرنے کی کوششیں کی ہیں، جن میں سے دو کامیابی سے مدار تک پہنچی بھی ہیں۔ تاہم اس بات کی حتمی طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ آیا یہ سیٹلائٹ سگنل بھیج بھی رہی ہیں یا نہیں۔
شمالی کوریا کے پڑوسیوں کا رد عمل
ان سمندری علاقوں سے متعلق بین الاقوامی میری ٹائم آرگنائزیشن کے کوآرڈینیٹنگ اتھارٹی کے طور پر شمالی کوریا نے جاپان کو تینوں بار اپنے لانچ کے منصوبوں سے آگاہ کیا ہے۔
جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیدا نے اس نئے اعلان کی مذمت کی اور کہا کہ انہوں نے سرکاری ایجنسیوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس حوالے سے ’’معلومات جمع کریں اور اسے جاپانی عوام تک فراہم کرنے کی بھرپور کوششیں کریں، متعلقہ ممالک کے تعاون سے لانچ کے منصوبے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ہی غیر متوقع حالات کی تیاری کے لیے بھی پوری کوشش کریں۔‘‘
جنوبی کوریا نے اس اعلان کے جواب میں اپنے شمالی پڑوسی کو اس لانچ کے خلاف خبردار کیا۔
جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیف ڈائریکٹر آپریشنز کانگ ہو پِل نے پیر کے روز کہا، ’’ہم شمالی کوریا کو سختی سے متنبہ کرتے ہیں کہ وہ فوجی جاسوس سیٹلائٹ لانچ کرنے کی موجودہ تیاریوں کو فوری طور پر معطل کر دے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’اگر شمالی کوریا ہماری وارننگ کے باوجود فوجی جاسوسی سیٹلائٹ لانچ کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے، تو ہماری فوج لوگوں کی جانوں اور ان کی حفاظت کی ضمانت کے لیے ضروری اقدامات کرے گی۔‘‘