حماس رہنما یحیٰی السنوار: ’خان یونس کا قصاب‘ جسے رہا کرنے کے فیصلے کو اسرائیلی فوج سنگین حماقت سمجھتی ہے

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) یحییٰ سنوار غائب ہو چکے ہیں۔ یہ بات ذرا بھی حیرت انگیز نہیں کیونکہ اس وقت ہزاروں اسرائیلی فوجی، ڈرونز اور جدید آلات اور جاسوسوں کی مدد سے انھیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سنوار کی ظاہری شبیہ کی بات کریں تو ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید ہیں جبکہ ان کی بھنویں کالی ہیں جو ان کو ظاہری طور پر منفرد بناتی ہیں۔ وہ غزہ میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ ہیں اور اسرائیل کو مطلوب حماس رہنماؤں کی فہرست میں شامل ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل ان سمیت دیگر حماس رہنماؤں کو سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر ہونے والے حملے کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے جس میں 1200 افراد ہلاک جبکہ 200 یرغمال بنائے گئے۔

اکتوبر کے آغاز میں اسرائیل ڈیفنس فورسز کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری نے کہا تھا کہ ’یحیٰی سنوار کمانڈر ہیں۔۔۔ اور انھیں ہلاک کر دیا جائے گا۔‘

آئی ڈی ایف کے چیف آف سٹاف ہیرزی ہلیوی نے کہا کہ ’اس ہلاکت خیز حملہ کرنے کا فیصلہ یحیٰی سنوار نے کیا۔ اس لیے ان سمیت ان کے ساتھ کام کرنے والے تمام افراد کو پکڑنے پر ہلاک کر دیا جائے گا۔‘

ان میں محمد الضیف بھی شامل ہیں جو حماس کے عسکری شعبے القسام بریگیڈ کے سربراہ ہیں۔

یورپین کونسل برائے خارجہ امور (ای سی ایف آر) میں سینیئر پالیسی فیلو ہیو لویاٹ کا ماننا ہے کہ الضیف سات اکتوبر کے حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں میں سے تھے کیونکہ یہ ایک فوجی آپریشن تھا لیکن السنوار ’ممکنہ طور پر اس گروپ کا حصہ ہوں گے جس نے اس حملے کی منصوبہ بندی کی اور اس فیصلے پر اثر انداز ہوئے۔‘

السنوار حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے نائب تصور کیے جاتے ہیں اور اسرائیل کا ماننا ہے کہ وہ غزہ میں زیرِ زمین سرنگوں میں کہیں اپنے باڈی گارڈز کے ساتھ موجود ہیں اور اس ڈر سے کسی سے رابطہ نہیں کر رہے کہ کہیں ان کی لوکیشن کے بارے میں اسرائیل کو معلوم نہ ہو جائے۔

یحیٰی السنوار کا بچپن اور گرفتاریاں

یحییٰ السنوار 61 برس کے ہیں اور انھیں عرف عام میں ابو ابراہیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ غزہ کی پٹی کے جنوب میں خان یونس کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والدین کا تعلق عسقلان سے تھا اور انھیں النکبہ یعنی اسرائیل کے قیام کے نتیجے میں سنہ 1948 میں بڑے پیمانے پر جبراً اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی تھی۔

انھوں نے خان یونس کے ایک سیکنڈری سکول میں تعلیم حاصل کی تھی اور پھر غزہ کی اسلامک یونیورسٹی سے عربی زبان میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔

واشنگٹن انسٹیٹیوٹ آف نیئر ایسٹ پالیسی میں ریسرچ فیلو احد یاری نے السنوار کا جیل میں چار بار انٹرویو کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ السنوار کے جوانی کے دنوں میں خان یونس ’مسلم بردرہڈ‘ نامی تنظیم کے گڑھ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

یاری کے مطابق عسکریت پسند گروہ ’نوجوانوں کے لیے ایک بھرپور تحریک تھی جس کے لیے وہ پناہ گزین کیمپوں کی غربت کی زندگی گزارتے ہوئے مساجد میں جایا کرتے تھے۔‘ یاری کا کہنا ہے کہ یہ بعد میں حماس کے لیے ایسی ہی اہمیت کی حامل ہونے والی تھی۔

السنوار کو سنہ 1982 میں پہلی مرتبہ اسرائیل نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ 19 برس کے تھے۔ انھیں ’انتہا پسند سرگرمیاں‘ کرنے پر سنہ 1985 میں دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب انھوں نے حماس کے وہیل چیئر تک محدود بانی شیخ احمد یاسین کا اعتماد حاصل کر لیا تھا۔

انسٹیٹیوٹ برائے نیشنل سکیورٹی سٹڈیز تل ابیب میں سینیئر ریسرچر کوبی مائیکل کا کہنا ہے کہ دونوں کے درمیان قربت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا۔ یہ رشتہ السنوار کے تنظیم میں ان کے بارے میں تاثر کے حوالے سے گہرا اثر ڈالنے کا باعث بنا۔

دو سال بعد یعنی 1987 میں حماس کا قیام عمل میں آیا اور السنوار نے ہی گروپ کا داخلی سکیورٹی شعبہ قائم کیا جسے المجد کا نام دیا گیا۔ وہ اس وقت صرف 25 سال کے تھے۔

المجد جلد ہی ایسے لوگوں کو سزائیں دینے کے بارے میں بدنام ہوا جن پر اخلاقی جرائم کے الزامات تھے۔ مائیکل کے مطابق انھوں نے اس دوران ایسی دکانوں پر چھاپے مارے جو ’سیکس ویڈیوز‘ رکھتے تھے اور ساتھ ہی ایسے کسی بھی شخص کو ہلاک کر دیا جس پر اسرائیل کے ساتھ تعاون کرنے کا الزام تھا۔

یاری کا کہنا ہے کہ وہ متعدد ایسی ’ظالمانہ ہلاکتوں‘ میں ملوث تھے جن میں ہلاک ہونے والوں پر اسرائیل کی حمایت کرنے کا الزام تھا۔ ’کچھ کو تو انھوں نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا اور وہ اس بات پر فخر کرتے تھے اور یہ بات انھوں نے مجھ سے اور دیگر افراد سے بات کرتے ہوئے بھی کہی۔‘

اسرائیلی حکام کے مطابق انھوں نے بعد میں یہ بھی تسلیم کیا کہ انھوں نے ایک مشتبہ مخبر کو سزا اس طرح دی تھی کہ اس کے بھائی کو اسے زندہ درگور کرنے کا کہا تھا اور مٹی پھینکنے کے لیے آخر پر ان سے بیلچے کی جگہ چمچ کا استعمال کروایا تھا۔

یاری کا کہنا تھا کہ ’وہ ایسے آدمی ہیں جن کے اردگرد ان کے حمایتی اور مداح اکھٹے ہو جاتے ہیں جن میں کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو صرف اس لیے ان کے ساتھ ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان سے ڈرتے ہیں اور ان کے ساتھ لڑائی نہیں کرنا چاہتے۔‘

سنہ 1988 میں السنوار نے مبینہ طور پر دو اسرائیلی فوجیوں کا اغوا اور ہلاکت کی منصوبہ بندی کی تھی۔ انھیں اسی سال گرفتار کیا گیا تھا اور اسرائیل میں انھیں 12 افراد کے قتل کے باعث چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

جیل میں گزرے سال

السنوار نے سنہ 1988 سے 2011 تک 22 سال جیل میں گزارے جو ان کی ادھیڑ عمر کا بڑا حصہ بنتا ہے۔ وہاں ان کا وقت کچھ عرصہ قیدِ تنہائی میں بھی گزرا اور اس کے باعث ان میں عسکریت پسند عنصر مزید شدت پکڑ گیا۔

یاری کا کہنا ہے کہ ’وہ طاقت کے ذریعے اپنا دبدبہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے خود کو قیدیوں میں بطور رہنما منوایا اور جیل انتظامیہ سے ان کے لیے مذاکرات بھی کیے اور قیدیوں میں نظم و ضبط قائم کرنے کی کوشش بھی کی۔‘

اسرائیلی حکومت کی جانب سے السنوار کے کردار کے بارے میں کیے گئے تجزیے کے مطابق وہ ایک ’جابر، دبدبے والے اور بااثر رہنما ہیں جن میں برداشت، چالاکی اور ساز باز کرنے اور تھوڑے وسائل پر گزارا کرنے کی غیر معمولی صلاحیتیں ہیں۔۔۔ وہ جیل میں بھی قیدیوں کے درمیان راز رکھتے تھے، اور ان میں ہجوم کی سربراہی کرنے کی صلاحیت تھی۔‘

یاری کا السنوارکے بارے میں تجزیہ بھی دلچسپ ہے۔ یہ ان تمام ملاقاتوں کے بعد سامنے آیا ہے جو ان کے درمیان جیل میں ہوئی تھیں۔ یاری کا کہنا ہے کہ وہ ایک ’نفسیاتی مریض‘ ہیں۔ ’لیکن صرف یہ کہنا کہ السنوار نفسیاتی مریض ہیں، ایک غلطی ہو گی کیونکہ پھر آپ ان کے اس پراسرار اور پیچیدہ شخصیت کو نظر انداز کر جائیں گے۔‘

یاری کہتے ہیں کہ وہ ’انتہائی شاطر اور چالاک ہیں، ایک ایسا شخص جسے اپنی شخصیت کی کشش میں اضافہ کرنا اور اسے کم کرنا آتا ہے۔‘

جب السنوار ان سے بات کرتے ہوئے یہ کہتے کہ اسرائیل کو تباہ کرنا ضروری ہے تو وہ اس بات پر زور دیتے کہ فلسطین میں یہودیوں کی کوئی جگہ نہیں۔ ساتھ ہی ’مذاق میں یہ بھی کہہ دیتے کہ ہو سکتا ہے کہ ہم آپ کے لیے گنجائش نکال لیں۔‘

جب السنوار جیل میں تھے تو انھوں نے عبرانی زبان پر عبور حاصل کر لیا تھا اور اسرائیلی اخبارات پڑھتے تھے۔ یاری کا کہنا ہے کہ سنوار ہمیشہ ان کے ساتھ عبرانی زبان میں بات کرنے کو ترجیح دیتے حالانکہ یاری خود عربی زبان بولنا جانتے تھے۔

یاری بتاتے ہیں کہ ’وہ عبرانی زبان کو بہتر کرنا چاہتے تھے۔ میرے خیال میں وہ کسی ایسے شخص سے بات کر کے زبان میں مہارت حاصل کرنا چاہتے تھے جو جیل وارڈن سے بہتر عبرانی زبان بول سکیں۔

السنوار کو سنہ 2011 میں ایک معاہدے کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا جس میں 1028 فلسطینی اور اسرائیلی عرب قیدی رہا ہوئے تھے اور اس کے بدلے میں اکیلے اسرائیلی یرغمالی فوجی جیلاد شالیت کی رہائی ممکن ہوئی۔

خیال رہے کہ شالیت کو اغوا کے پانچ سال بعد تک یرغمال بنایا گیا تھا اور یہ کام حماس کے دیگر کارکنوں سمیت السنوار کے بھائی نے کیا تھا جو اس وقت بھی حماس کے سینیئر فوجی کمانڈر ہیں۔ السنوار نے اس کے بعد سے مزید اسرائیلی فوجیوں کے اغوا پر زور دیا ہے۔

اس وقت تک اسرائیل نے غزہ کی پٹی کا قبضہ ختم کر دیا تھا اور اس پر حماس کا کنٹرول تھا۔ یہ الیکشن جیتنے اور اپنے حریف یاسر عرفات کی جماعت الفتح پارٹی کو پٹی سے مکمل طور پر ختم کرنے کی وجہ سے ہوا۔ اس دوران الفتح پارٹی کے متعدد کارکنوں کو عمارتوں کے اوپر سے نیچے پھینکا گیا تھا۔

نظم و ضبط کی پابندی

مائیکل کے مطابق جب السنوار غزہ واپس گئے تو انھیں فوری طور پر بطور رہنما تسلیم کر لیا گیا۔ اس کا زیادہ تعلق اس بات سے تھا کہ انھوں نے حماس کے بانی لیڈر کے طور پر نام کمایا تھا اور انھوں نے اپنی زندگی کے 22 سال جیل میں گزارے تھے۔

اس کے علاوہ ’لوگ ان سے ڈرتے تھے، یہ وہ شخص ہے جس نے لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا تھا۔ وہ ایک ہی وقت میں بہت ظالم، جارح مزاج اور پرکشش شخصیت کے مالک ہیں۔‘

یاری کا کہنا ہے کہ ’انھیں اچھی تقریر کرنی نہیں آتی لیکن جب وہ عوام سے بات کر رہے ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہجوم میں سے ہی کوئی بول رہا ہے۔‘

یاری کا کہنا تھا کہ جیل سے رہا ہونے کے فوراً بعد السنوار نے فوری طور پر عزالدین القسام بریگیڈز اور چیف آف سٹاف مروان عیسیٰ سے اتحاد کر لیا۔

سنہ 2013 میں انھیں غزہ میں حماس کے سیاسی بیورو کارکن منتخب کیا گیا جس کے بعد سنہ 2017 میں انھیں اس کا سربراہ بنا دیا گیا۔

السنوار کے چھوٹے بھائی محمد نے بھی حماس کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ وہ اسرائیل کی جانب سے متعدد قاتلانہ حملوں میں بچنے میں کامیاب ہوئے لیکن پھر حماس نے سنہ 2014 میں ان کی ہلاکت کی تصدیق کر دی۔ اس حوالے سے ایسی میڈیا رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ وہ اب بھی زندہ ہیں اور حماس کے عسکری شعبے میں متحرک ہیں اور غزہ میں سرنگوں میں چھپے ہوئے ہیں اور ممکنہ طور پر سات اکتوبر کے حملوں میں بھی کردار ادا کر چکے پیں تاہم اس حوالے سے تاحال کچھ بھی واٰضح نہیں۔

سنوار کی ظالمانہ روش اور پر پرتشدد فطرت کے باعث انھیں ’خان یونس کا قصاب‘ کا نام دیا گیا۔ یاری کا کہنا ہے کہ ’وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جو نظم و ضبط کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ اگر آپ سنوار کی حکم عدولی کریں تو یہ اپنی زندگی داؤ پر لگانے کے مترادف ہو گا۔‘

ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سنہ 2015 میں حماس کمانڈر محمود اشتیوی کی قید، ان پر تشدد اور قتل کے ذمہ دار تھے۔ محمود اشتیوی پر بدعنوانی اور ہم جنس پرستی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

سنہ 2018 میں بین الاقوامی میڈیا کو دی گئی بریفنگ میں انھوں نے ان ہزاروں فلسطینیوں کے لیے حمایت کا اعلان کیا جو امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے غزہ کی پٹی اور اسرائیل کے درمیان موجود سرحدی فصیل کو پار کرنا چاہتے ہیں۔

اس سال کے اواخر میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ غرب اردن کی فلسطینی اتھارٹی کے حمایتیوں کے ہاتھوں ایک قاتلانہ حملے میں بچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

تاہم وہ اس سے قبل اسرائیل سے جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے اور فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بھی بات کرتے رہے ہیں۔ مائیکل کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے مخالفین پر بہت زیادہ اعتدال پسند ہونے کے باعث بھی تنقید کی ہے۔

ایران سے قربت

اسرائیلی ڈیفنس اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں سے اکثر کا اب بھی ماننا ہے کہ السنوار کو یرغمالی اسرائیلی فوجی کے بدلے جیل سے چھوڑنا سنگین حماقت تھی۔

اسرائیلیوں کا ماننا ہے کہ انھیں یہ کہہ کر تحفظ کا جھوٹا احساس دلوایا گیا کہ حماس کو معاشی طور پر مضبوط کر کے اور مزید ورک پرمٹس دے کر تحریک کی جنگ کرنے کی صلاحیت ماند پڑ سکتی ہے۔تاہم یہ ایک بہت بڑی غلطی ثابت ہوئی۔

یاری کا کہنا ہے کہ ’وہ اپنے آپ کو ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں جو فلسطین کو آزاد کروانا چاہتے ہیں، وہ غزہ میں لوگوں کی معاشی صورتحال بہتر کرنے اور انھیں سوشل سروسز دینے کے حق میں نہیں۔‘

سنہ 2015 میں امریکہ کی وزارتِ خارجہ نے باضابطہ طور سنوار کا نام ’عالمی دہشتگردوں کی فہرست‘ میں ڈال دیا تھا۔ مئی 2021 میں غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملے میں ان کے گھر اور دفتر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اپریل 2022 میں ٹیلی ویژن پر ایک خطاب میں انھوں نے لوگوں کو کسی بھی طرح سے اسرائیل پر حملہ کرنے کی ترغیب دی تھی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ان کا حماس میں انتہائی اہم کردار ہے اور وہ گروپ کے سیاسی بیورو کو اس کے عسکری ونگ سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

14 اکتوبر کو ایک اسرائیلی فوجی ترجمان لیفٹیننٹ کرنل رچرڈ ہیخٹ نے سنوار کو ’برائی کا چہرہ‘ قرار دیا تھا۔ انھوں نے اس دوران یہ بھی کہا تھا کہ ’یہ شخص اور اس کی پوری ٹیم ہماری نظروں میں ہے۔ ہم اس شخص تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘

سنوار ایران سے بھی خاصے قریب ہیں۔ ایک شیعہ ملک اور ایک سنی تنظیم کے درمیان اتحاد کبھی بھی واضح نہیں ہوتا لیکن دونوں کا ایک ہی ہدف ہے اور یہ کہ اسرائیل کو ختم کرنا ہے اور یروشلم کو اسرائیلی قبضے سے ’آزاد‘ کروانا ہے۔

دونوں ممکنہ طور پر ساتھ ساتھ کام بھی کر رہے ہیں۔ ایران کے فنڈ، ٹریننگز اور اسلحہ، حماس کے لیے عسکری صلاحیت بہتر کرنے اور اسلحہ جمع کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے جسے پھر اسرائیلی سرحدی قصبوں پر استعمال کیا جاتا ہے۔

السنوار نے سنہ 2021 کی ایک تقریر میں ایران کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ایران نہ ہوتا تو فلسطین میں مزاحمت موجود صلاحیتوں پر نہ چلائی جا سکتی۔‘

تاہم لوواٹ کا کہنا ہے کہ سنوار کی ہلاکت اسرائیل کی ’پی آر کامیابی‘ تو ہو سکتی ہے لیکن اس سے حماس کی تحریک کو کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔

غیر ریاستی تنظیموں کا انتظام ایسا ہوتا ہے کہ اس کے متعدد سربراہ ہوتے ہیں، اور جیسے ہی ایک سربراہ ہلاک یا ہٹایا جائے تو اس کو تبدیل کر لیا جاتا ہے۔ ان کے پیشرو اکثر تجربے اور ساکھ کے اعتبار سے تو کمزور ہوتے ہیں لیکن تنظیم پھر بھی ان کے نیچے کام کرنا سیکھ جاتی ہے۔

لوواٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ واضح ہے کہ اگر وہ ہلاک ہوتے ہیں تو یہ بڑا نقصان ہو گا لیکن ان کی جگہ کوئی اور آ جائے گا اور اس کے لیے بھی انتظام موجود ہے۔ یہ ویسا نہیں، جیسے اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنا تھا۔ حماس میں دیگر سیاسی اور عسکری رہنما موجود ہیں۔‘

تاہم اب بھی ایک بڑا سوال یہ ہے کہ جب اسرائیل غزہ میں فوجی مہم ختم کرتا ہے تو غزہ کا انتظام کون سنبھالے گا اور کیا وہ اسے ایک بار پھر اسرائیل پر حملہ کرنے کے لیے لانچ پیڈ بننے سے روک سکیں گے جس کے بعد بڑے پیمانے پر حملے اور تباہی سامنے آتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں