ایران نواز حوثی باغیوں نے اسرائیلی جہاز کو قبضے میں لینے کی ویڈیو جاری کردی

واشنگٹن (ڈیلی اردو) ایران نواز حوثی باغیوں نے اتوار کو بحیرہ احمر سے اسرائیلی مال بردار بحری جہاز ’’ گلیکسی لیڈر‘‘ پر قبضہ کرلیا تھا۔ پیر کو حوثی باغیوں نے اس بحری جہاز پر قبضہ کرنے کی ویڈیو جاری کردی۔ ویڈیو کلپ میں دکھایا گیا ہے کہ بحری جہاز کو کنٹرول میں لینے کے آپریشن میں ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیا گیا۔ اور مال بردار بحری جہاز کے عملے کو قابو میں لے لیتے ہیں۔

حوثی باغیوں نے کہا تھا کہ اس نے بحیرہ احمر میں ساحل کی طرف سفر کرتے ہوئے ایک اسرائیلی بحری جہاز کو قبضہ میں لے لیا ہے۔ حوثی باغیوں نے اعلان کیا تھا کہ بحیرہ احمر میں تمام اسرائیلی بحری جہازوں کو ہدف بنایا جائے گا۔

بتایا جارہا ہے کہ جہاز کو یمنی ساحل کی جانب لے جایا گیا ہے جہاں اب یہ جہاز لنگر انداز کردیا گیا ہے۔

حوثی باغیوں کے ترجمان جنرل یحییٰ نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ہر جہاز کو یمنی میزائلوں سے نشانہ بنایا جائے گا۔

اسرائیلی الزمات کی ایرانی تردید

اس سے چند ہی روز قبل ان باغیوں نے دھمکی دی تھی کہ وہ غزہ پٹی کے علاقے میں عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس اور اسرائیل کے مابین جاری جنگ کے تناظر میں بحیرہ احمر کے خطے میں اسرائیلی جہازوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔

اس بارے میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر کی طرف سے گزشتہ روز کہا گیا تھا کہ یمن کی حوثی ملیشیا کے ارکان نے ‘گلیکسی لیڈر‘ نامی شپ کو ”ایرانی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ہائی جیک کیا۔‘‘

اس کے جواب میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے پیر 20 نومبر کے روز کہا کہ اسرائیل کی طرف سے اس بحری جہاز پر حوثی باغیوں کے قبضے کے محرکات سے متعلق ایران کے خلاف لگائے گئے الزامات غلط ہیں۔

ناصر کنعانی کے مطابق، ”ایران کے خلاف عائد کردہ یہ الزامات اسرائیل کی ان کوششوں کا حصہ ہیں، جن کے تحت وہ اس صورت حال سے نکلنے کی کاوش میں ہے، جس کا اسے سامنا ہے۔‘‘

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، ”ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ اس خطے میں مزاحمت کرنے والے گروہ نہ صرف اپنے اپنے ممالک کی نمائندگی کرتے ہیں، بلکہ وہ اپنے فیصلے بھی خود کرتے ہیں اور ان کے اقدامات کی بنیاد ان کے اپنے ممالک کے مفادات ہوتے ہیں۔‘‘

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ میری ٹائم سکیورٹی کمپنی ایمبری کے مطابق یہ بحری جہاز ‘رے کار کیریئرز‘ نامی گروپ کی ملکیت ہے، جس کا مالک ابراہام رامی اُنگر کا کاروباری ادارہ ہے۔ اُنگر ایک اسرائیلی بزنس مین ہیں۔

حماس اور اسرائیل کی جنگ

فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر کیے گئے دہشت گردانہ حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے اور جاتے ہوئے حماس کے جنگجو تقریباﹰ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔ یہ یرغمالی ابھی تک حماس کی قید میں ہیں۔

اس حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی کی مکمل ناکہ بندی کر دی تھی اور ساتھ ہی غزہ پر مسلسل زمینی اور فضائی حملے بھی شروع کر دیے تھے۔ اس بمباری کے نتیجے میں اب تک 13 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں ہزاروں کی تعداد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔

جہاں تک ایران کا تعلق ہے، تو اس نے حماس کے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کو ایک ‘کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے اسے سراہا تھا لیکن ساتھ ہی یہ تردید بھی کی تھی کہ وہ اس حملے میں کسی بھی طرح ملوث تھا۔ ایران کی طرف سے حماس کی مالی اور عسکری دونوں سطحوں پر مدد کی جاتی ہے۔

امریکہ حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ کے پیش نظر اپنے دو جنگی طیارہ بردار بحری بیڑے اس لیے مشرقی بحیرہ روم کے علاقے میں بھیج چکا ہے کہ یوں واشنگٹن کی ان کوششوں کو تقویت دی جا سکے، جو وہ اس جنگ کو پھیل کے زیادہ وسیع ہو جانے سے روکنے کے لیے کر رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں