نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) نئی دہلی میں افغان سفارتخانے کا کہنا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ پالیسی اور مفادات میں وسیع تر تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ اس بیان میں طالبان اور بھارتی حکومت کی طرف سے ‘کنٹرول چھوڑنے’ کے لیے ‘مسلسل دباؤ’ کا بھی حوالہ دیا گیا۔
بھارتی دارالحکومت دہلی میں افغانستان کے سفارت خانے نے جمعے کے روز اعلان کیا کہ اسے بھارتی حکومت کی طرف سے مسلسل چیلنجز کا سامنا رہا ہے اس لیے اب سفارت خانے کو مستقل طور پر بند کیا جا رہا ہے۔
اس سفارتی مشن کی بندش سے متعلق جاری کیے جانے والے ایک باضابطہ بیان میں کہا گیا کہ نئی دہلی میں 23 نومبر سے سفارتی سرگرمیاں مکمل طور پر روک دی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ ماہ ستمبر میں بھی ایسی خبریں آئی تھیں کہ سفارتی سرگرمیاں بہت جلد ہی بند کر دی جائیں گی۔
طالبان کے ساتھ مغربی مذاکرات، پاکستان اور بھارت بھی
افغان حکام نے بندش سے متعلق مزید کیا کہا؟
جمعے کے روز جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ 30 ستمبر کو سفارت خانے میں آپریشنز کو پہلے ہی بند کر دیا گیا تھا۔ یہ اقدام اس امید کے ساتھ کیا گیا ہے کہ شاید بھارتی حکومت کے موقف میں مثبت تبدیلی آئے گی، جس سے مشن کو معمول کے مطابق کام کرنے دیا جائے گا۔
سفارت خانے نے مزید کہا کہ اسے اس بات کا بھی “اندازہ” ہے کہ کچھ لوگ اس اقدام کو ایک ایسے اندرونی تنازعہ کی وجہ بتانے کی کوشش کر سکتے ہیں، جس میں مبینہ طور پر ایسے سفارت کار شامل ہوں گے، جنہوں نے طالبان سے بیعت کی ہے۔
تاہم اس کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ فیصلہ پالیسی اور مفادات میں وسیع تر تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔
اس بیان میں مزید کہا گیا، ’’بدقسمتی سے طالبان کے مقرر کردہ اور ان سے وابستہ سفارت کاروں کی موجودگی اور ان کے کام کا جواز پیش کرنے کے لیے، ہماری ساکھ کو خراب کرنے اور سفارتی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کی کوششیں کی گئیں۔”
“ہماری پرعزم ٹیم نے انتہائی مشکل حالات میں بھی پوری تندہی سے کام کیا، انسانی امداد اور آن لائن تعلیمی وظائف کے حصول سے لے کر تجارت میں آسانی پیدا کرنے تک 40 ملین افغانوں کے مفادات کو ہر ممکن طریقے سے ترجیح دی۔”
سفارت خانے نے مزید کہا کہ “ہمارے مشن کی مدت کے دوران بھارت میں افغان شہریوں نے سفارت خانے سے جس لگاؤ اور حمایت کا مظاہرہ کیا، اس کا سفارت خانہ تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے۔”
سفارت خانے نے اپنے بیان میں کہا کہ گزشتہ دو برس اور تین مہینوں کے دوران افغان مہاجرین، طلباء اور تاجروں کے ملک چھوڑنے کے سبب، بھارت میں افغان کمیونٹی میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اگست سن 2021 کے بعد سے ان کی تعداد تقریباً نصف ہو کر رہ گئی ہے، کیونکہ اس مدت کے دوران بہت محدود پیمانے پر نئے ویزے جاری کیے گئے۔
بات یہاں تک کیسے پہنچی؟
تقریبا دو ماہ قبل بھارتی ذرائع ابلاغ میں اس طرح کی خبریں شائع ہوئی تھیں کہ افغانستان کے سفارت خانے نے بھارتی وزارت خارجہ کو ایک غیر دستخط شدہ خط (Note Verbale) بھیجا تھا، جس میں اشارہ کیا گیا تھا کہ سفارت خانے کو ستمبر کے اواخر تک بند کر دیا جائے گا۔
اس خط میں بالخصوص اس بات کا ذکر کیا گیا تھا کہ متعدد درخواستوں کے باوجود نئی دہلی نے اس کے ساتھ نہ تو کسی طرح کا تعاون کیا اور نہ ہی ان تقریباً 3000 افغان طلباء کو ویزے جاری کرنے میں مدد کی، جنہیں سن 2021 میں بھارت کا سفر کرنا تھا لیکن ان کے پاس سفری دستاویزات نہیں تھے۔
اس مذکورہ مکتوب میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جون سن 2022 میں بھارت کے کابل میں اپنا مشن کھولنے کے بعد، سابقہ اسلامیہ جمہوریہ افغانستان سے وفاداری کا عہد کرنے والے افغان سفارت خانے کو “سفارتی احترام اور دوستانہ اہمیت” نہیں دی گئی۔
اس’خط’ میں بھارت سے سفارتی تعلقات سے متعلق ویانا کنونشن کے پروٹوکول پر عمل کرتے ہوئے بھارت میں افغانستان کے اثاثوں اور انڈیا افغانستان فنڈ کو محفوظ رکھنے کے لیے کہا گیا تھا اور سفارت کاروں نیز ان کے اہل خانہ کو ایگزٹ پرمٹ کے ذریعے بھارت سے جانے کی سہولت فراہم کرنے کی درخواست بھی کی گئی تھی۔
افغانستان میں اگست 2021ء میں ملک پر طالبان کے کنٹرول کے بعد بھارت نے بھی وہاں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا۔ تاہم اس نے بعد میں انسانی امداد ی سرگرمیوں کو مربوط کرنے کے لیے ایک تکنیکی ٹیم افغانستان میں تعینات کر دی تھی۔