کوئٹہ (ڈیلی اردو) صوبہ بلوچستان کے ضلع تربت میں بالاچ مولا بخش کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف مظاہرین کا دھرنا پانچویں روز میں داخل ہوگیا جب کہ مظاہرین اور حکام کے درمیان مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
نجی ٹی وی چینل ڈان نیوز کے مطابق شٹر ڈاؤن ہڑتال کی وجہ سے تمام دکانیں بند رہیں جب کہ خاندان کے افراد نے بلوچ یکجہتی کونسل (بی وائی سی) اور سیاسی جماعتوں کے حامیوں کے ساتھ تربت کو کراچی اور دیگر علاقوں سے ملانے والی ڈی-بلوچ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور روڈ پر دھرنا دیا جس کے باعث شاہراہ پر ہر قسم کی ٹریفک معطل ہوگئی۔
مقتول بالاچ مولا بخش کے لواحقین لاش کے ہمراہ تربت میں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
جمعہ کو تربت کے سیشن جج کی جانب سے جاری احکامات کے باوجود قتل کی ایف آئی آر درج ہونا ابھی باقی ہے۔
بلوچ یکجہتی کونسل کے رہنماؤں اور مقتول کے اہلخانہ نے الزام لگایا کہ بالاچ مولا بخش کی بہن نجمہ بلوچ کو کیچ ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین کے دفتر کے عہدیدار بات چیت کے لیے نامعلوم مقام پر لے گئے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ نجمہ بلوچ کے ساتھ کئی گھنٹوں تک کوئی رابطہ نہیں تھا جب کہ اس کا موبائل فون بھی کئی گھنٹوں تک سائلنٹ رکھا گیا تھا۔
اپنی واپسی پر نجمہ بلوچ نے دعویٰ کیا کہ حکام ان پر دھرنا ختم کرنے اور اپنے بھائی کی تدفین کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔
تاہم شرکا نے ایف آئی آر درج کیے جانے اور سی ٹی ڈی کی حراست میں بالاچ مولا بخش کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کی جوڈیشل انکوائری کا اعلان کیے جانے تک دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔
بلوچ یکجہتی کونسل کے رہنماؤں نے عزم کیا کہ احتجاج کو ختم کرنے کے لیے کسی قسم کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔
انہوں نے آج بروز منگل مکران ڈویژن میں مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا اور تاجروں اور ٹرانسپورٹرز پر زور دیا کہ وہ ہڑتال کریں۔