سرحد پار کرنے کیلئے پاسپورٹ کی شرط: ’چمن کے لوگوں کو خیرات نہیں اپنے خون پسینے کی کمائی چاہیے‘

کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) بلوچستان کے افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن سے تعلق رکھنے والے عبدالقاہر اچکزئی اگرچہ حلیے سے بہت سادہ دکھائی دے رہے تھے لیکن وہ دلیل سے بات کرنے کا طریقہ اچھی طرح سے جانتے تھے۔

اس سوال پر کہ چمن کے لوگ پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمد و رفت کے لیے پاسپورٹ کی شرط کے خلاف کیوں ہیں، عبدالقاہر ہمیں اپنے کچے گھر کی چھت پر لے گئے اور قریب ہی سرحد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دوسری جانب ’میرے رشتہ دار ہیں۔‘

انھوں نے پوچھا کہ اگر ’خدانخواستہ سرحد کے اس پار رشتہ داروں میں کوئی فوت ہو جائے تو وہاں جنازے میں شرکت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کا انتظام دو تین گھنٹوں میں کیسے ممکن ہوسکے گا؟‘

تاجر رہنما صادق اچکزئی نے ہمیں کلی لقمان میں ایک ایسا قبرستان دکھایا جس میں چمن کے لوگوں کے علاوہ افغانستان کے صوبہ قندہار سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی قبریں تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا ’ہم اپنے فوت ہونے والے افراد کی تدفین کے لیے سرحد کے اس پار جانے کے لیے یا وہاں سے آنے کے لیے پاسپورٹ اور ویزا لیں۔‘

حکومت پاکستان کی جانب سے جب یکم نومبر سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمد و رفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط کا اعلان کیا گیا تو چمن کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں، تاجر اور مزدور تنظیموں نے اس کی مخالفت کی۔

پاسپورٹ کی شرط کے خلاف 21 اکتوبر سے چمن شہر میں ایک دھرنا شروع کیا گیا جو اب تک جاری ہے۔

اس احتجاج کے بعد اعلیٰ سویلین اور فوجی حکام نے اس شرط پر مظاہرین کو قائل کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے یہ بات نہیں مانی۔

سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے داخلی اور معاشی استحکام کے لیے دونوں ممالک کے درمیان آمد و رفت کے لیے یہ اقدام لازمی ہے کیونکہ کوئی بھی ملک روزانہ کسی دستاویزی ریگولیشن کے بغیر ہزاروں افراد کی آمد و رفت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

’معیشت کو ہماری تجارت سے نہیں بلکہ سٹیل ملز، پی آئی اے، ریلویز سے نقصان ہو رہا ہے‘

جب ہم اس دھرنے کے 36ویں روز چمن گئے تو اس روز بھی لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس میں شریک تھی اور اس سے خطاب کرنے والے مقررین اس عزم کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ پاسپورٹ کی شرط کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔

جب تک ہم کوریج کے سلسلے میں دھرنے میں موجود رہے تو بعض مقررین نے چمن میں لوگوں کے معاش اور کاروبار کے غیر روایتی ذرائع کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ چمن میں قیام پاکستان سے لے کر اب تک لوگوں کے لیے متبادل روزگار اور معاش کا انتظام نہیں کیا گیا، جس کے باعث چمن کے لوگوں نے اپنی محنت سے اس کا انتظام کیا۔

جو لوگ چمن سے لے کر گوادر تک افغانستان اور ایران کے ساتھ بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں وہ بارڈر کے اس پار سے لائی گئی اشیا کو سمگلنگ نہیں سمجھتے۔ بلکہ اسے سرحدی تجارت یا غیر روایتی روزگار قرار دیتے ہیں۔

تاہم وفاقی حکام اسے سمگلنگ قرار دیتی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے پاکستان کی معیشت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ رہا ہے۔

موجودہ نگراں حکومت کے دور میں ایسی اشیا کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کیا گیا ہے جو افغانستان اور ایران سے کسٹمز کی ادائیگی کے بغیر لائی جاتی ہیں۔ ان میں ایران سے آنے والا تیل بھی شامل ہے۔

بعض مقررین کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی معیشت کو ہمارے کاروبار یا تجارت سے نہیں بلکہ سٹیل ملز، پی آئی اے، ریلویز سمیت خسارے میں چلنے والے دیگر محکموں سے نقصان کا سامنا ہے اور اسی طرح حکومت اور فوج کے اخراجات بھی بہت زیادہ ہیں۔‘

دھرنے کے ترجمان صادق اچکزئی نے کہا کہ دیگر سرحدی شہروں کی طرح چمن میں حکومت کی جانب سے لوگوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے قابل ذکر اقدامات نہیں کیے گئے لیکن چمن کے لوگوں نے سرحد پر اپنے لیے روزگار کا جو انتظام کیا اب اسے بھی مختلف بہانوں سے ختم کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چمن سے تعلق رکھنے والے چالیس ہزار سے زائد لوگوں کے معاش کا انحصار افغانستان کی سرحدی منڈی پر ہے جس کے لیے ان کو روزانہ سرحد پار کرنا پڑتی ہے۔

’لغڑیوں کو خیرات نہیں بلکہ خون پسینے کی کمائی چاہیے‘

جس خیمے میں دھرنے کے قائدین کے لیے بیٹھنے کا انتظام تھا وہاں چمن کی ایک معروف شخصیت حاجی عبدالحکیم عرف حاجی پہلوان آقا بھی بیٹھے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے دیگر ممالک یا پاکستان اور انڈیا کے درمیان جو سرحدیں ہیں ان کی مثالیں چمن سے متصل افغانستان کی سرحد کے لیے نہ دی جائے کیونکہ یہاں معاملہ بالکل مختلف ہے۔

انھوں نے بتایا کہ جب انگریزوں اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ ہوا تو اس کے باعث سرحد کے دونوں اطراف میں آباد ایک ہی قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی آمد و رفت پر کوئی پابندی نہیں لگائی، لوگ نہ صرف اس وقت سے بلکہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاسپورٹ کے بغیر آتے جاتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چمن میں بہت سارے دیہات ایسے ہیں جن کا آدھا حصہ افغانستان اور آدھا پاکستان میں ہے۔

مقامی میڈیا میں یہ خبر آئی تھی کہ اقتصادی رابطہ کونسل میں پاسپورٹ کی شرط کے بعد چمن سرحد پر محنت مزدوری کرنے والے آٹھ ہزار محنت کشوں کو ماہانہ 20 ہزار روپے دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

دھرنے کے قائدین کے کیمپ میں ’لغڑی‘ اتحاد کے صدر غوث اللہ سے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ اس معاوضے کو قبول کریں گے تو ان کا جواب تھا کہ ’لغڑیوں کو خیرات نہیں بلکہ اپنے خون پسینے کی کمائی چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ لغڑی چاہتے ہیں کہ انھیں شناختی کارڈ پر روزانہ سرحد سے آمدورفت کی اجازت دی جائے اور اس کے علاوہ وہ کچھ نہیں چاہتے ہیں۔‘

واضح رہے کہ چمن میں لغڑی ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو سرحد پر محنت مزدوری کرتے ہیں اور یہاں سے چیزیں کندھوں پر یا ہتھ گاڑیوں میں رکھ کر سرحد کے آس پاس لاتے ہیں۔

علاقے میں بے روزگاری: ’چپڑاسی کی پوسٹ کے لیے 20 ہزار درخواستیں‘

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مقامی رہنما شیر علی اچکزئی نے کہا کہ ہم حکومت کی متبادل روزگار کی کیا بات کریں یہاں تو اب تک صحت اور تعلیم کی مناسب سہولیات تک مہیا نہیں کی جا سکی ہیں۔

’یہاں بے روزگاری کا عالم تو یہ ہے کہ اگر چپڑاسی کی ایک پوسٹ آ جائے تو 20 ہزار لوگ اس کے لیے درخواست دیتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر پاسپورٹ کی شرط کو واپس نہ لیا گیا تو چمن میں ہزاروں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔

چمن میں ہزاروں محنت کش ہیں جن کے معاش کا سو فیصد انحصار سرحد سے آمدورفت پر ہے۔

صادق اچکزئی اور دیگر تاجر رہنماؤں کے مطابق ایسے لوگوں کی تعداد 20 ہزار کے لگ بھگ ہے تاہم سرکاری حکام کے مطابق ان کی تعداد آٹھ ہزار ہے۔

پاسپورٹ کی شرط کے باعث آمدورفت بند ہونے سے روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور بے کار بھیٹے دکھائی دیے۔ مزدوری کرنے والوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے موٹے تاجر بھی ہیں جن کا کاروبار افغان منڈیوں میں ہے۔

افغان سرحدی منڈیوں میں ایک دکان کے مالک محب اللہ نے بتایا کہ وہ صبح سرحد کے اس پار جاتے تھے جبکہ عصر کو واپس چمن آتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اور دیگر ہزاروں تاجر اب پریشانی سے دوچار ہو گئے ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ معاش ختم ہو رہا ہے جبکہ چمن میں ایسے ہزاروں افراد کے لیے روزگار کا متبادل ذریعہ نہیں۔

دوسری جانب سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے داخلی استحکام اور معیشت کی بہتری کے لیے سرحدوں سے لوگوں کی آمدورفت کی نگرانی کرنا ناگزیر ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیراطلاعات جان محمد اچکزئی کا کہنا ہے کہ اب ریاست نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پاسپورٹ کے ذریعے ہی پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمدورفت کی اجازت ہوگی ۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر چمن میں ایسی رعایت دی گئی تو پھرتمام سرحدی علاقوں کے لوگ یہ رعایت مانگیں گے۔

ان کا کہنا ہے کوئی بھی ملک روزانہ کسی دستاویز کے بغیر ہزاروں افراد کی آمدورفت کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس لیے حکومت نے فیصلہ کیا کہ اب لوگوں کی آمدورفت پاسپورٹ کے ذریعے ہو گی اور اس مقصد کے لیے چمن میں پاسپورٹ آفس کو بھی فعال بنایا گیا۔

واضح رہے کہ چمن میں یہ دھرنا شہر اور سرحد تک جانے والی شاہراہ پر دیا جا رہا ہے۔ شروع میں یہ شاہراہ ایک طرف سے آمدورفت کے لیے کھلی تھی لیکن اب اسے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔

دھرنے کے ترجمان صادق خان اچکزئی نے پاسپورٹ کی شرط کے فیصلے کو چمن کے عوام کے معاش اور روزگار پر’ ڈرون حملہ‘ قرار دیا۔

صادق اچکزئی نے کہا کہ اگر پاسپورٹ کی شرط کو واپس اور شناختی کارڈ کے ذریعے لوگوں کی آمدورفت کو بحال نہ کیا گیا تو احتجاج کو کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں تک وسعت دی جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں