واشنگٹن + صنعا (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے) امریکی افواج کا کہنا ہے کہ گھنٹوں جاری رہنے والے حملے کے دوران دفاعی کارروائی میں تین ڈرونز کو مار گرایا گیا۔
امریکی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اتوار 3 دسمبر کو یمن کے حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر میں تین تجارتی بحری جہازوں کو بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے نشانہ بنایا۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ اس دوران دفاعی کارروائی میں ایک امریکی جنگی جہاز کے ذریعے تین ڈرونز کو بھی مار گرایا۔
Today, there were four attacks against three separate commercial vessels operating in international waters in the southern Red Sea. These three vessels are connected to 14 separate nations. The Arleigh-Burke Class destroyer USS CARNEY responded to the distress calls from the…
— U.S. Central Command (@CENTCOM) December 3, 2023
دوسری جانب حوثی باغیوں نے ان تین میں سے دو بحری جہازوں ہر حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
امریکی فوج کے کمانڈ سینٹر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس حملے کا آغاز یمن کے دارالحکومت صنعا کے مقامی وقت کے مطابق اتوار صبح 9 بج کر 15 منٹ پر ہوا اور اب جوابی کارروائی پر غور کیا جائے گا۔
غزہ میں اسرائیل اور حماس کے مابین جاری جنگ کے بعد سے مشرق وسطی کے سمندروں میں اس تنازعے سے منسلک حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور اتوار کو ہونے والا حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
امریکی افواج نے ان حملوں سے متعلق اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ یہ بین الاقوامی تجارت اور بحری سکیورٹی کے لیے براہ راست خطرہ ہیں۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ ان حملوں نے متعدد ممالک کی نمائندگی کرنے والے بین الاقوامی عملے کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
امریکی افواج کا یہ بھی ماننا ہے کہ اتوار کے حملے میں حوثی باغیوں کو ان کے حامی ایران کی طرف سے بھی مدد فراہم کی گئی۔
حوثی باغیوں نے اتوار ہونے والے تین حملوں میں سے دو کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک بحری جہاز کو میزائل جبکہ دوسرے کو ایک ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔
تاہم حوثی ملیشیا کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل یحییٰ ساری نے اپنے بیان میں ان حملوں کے دوران کسی امریکی جنگی جہاز کی جانب سے جوابی کارروائی کا ذکر نہیں کیا ہے۔
یحییٰ ساری نے اپنے بیان میں کہا، ”یمن کی مسلح افواج اسرائیلی جہازوں کو اس وقت تک بحیرہ احمر میں جانے سے روکتی رہیں گی جب تک غزہ میں ہمارے ثابت قدم بھائیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت ختم نہیں کر دی جاتی۔‘‘
انہوں نے تمام اسرائیلی اور اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں کے مالکان کو تنبیہ کی ہے کہ خلاف ورزی کی صورت میں “یمنی مسلح افواج” کا ان جہازوں کو نشانہ بنانا ایک جائز عمل بن جائے گا۔
اس دوران ایران کی جانب سے ان حملوں سے متعلق اب تک کوئی براہ راست بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا ہے کہ اگر غزہ میں موجودہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو اسرائیل اور حماس کے مابین جاری جنگ کے حوالے سے خطے میں ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوگا۔
امیرعبداللہیان نے کہا، ”وہ تمام فریق جو مزید جنگ چاہتے ہیں، ان کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ خواتین اور بچوں کا قتل، جس کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے، روک دیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ بیان انہوں نے “مزاحمتی طاقتوں” سے بات کرنے کہ بعد دیا۔ ایران مزاحمتی طاقتوں کی اصطلاح کا استعمال حوثیوں اور حزب اللہ جیسے گروپوں کے لیے کرتا ہے۔