واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو اسٹیفورڈ نے انکشاف کیا کہ امریکا اور افغانستان کی جیلوں میں عافیہ صدیقی کا ریپ کیا گیا ہے۔
نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل کا کہنا تھا کہ عافیہ صدیقی جیل کے قیدیوں کے ہاتھوں ان گنت بار جنسی ہراسانی کا نشانہ بنی، عافیہ کو جیل کے گارڈز نے 2 بار ریپ کا نشانہ بنایا، انہوں نے بتایا کہ بگرام میں تفتیشی حربے کے طور پر عافیہ صدیقی کا ریپ کیا گیا۔
'ڈاکٹر عافیہ کو دو بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا'، وکیل کا انکشاف pic.twitter.com/yW6vihyD6f
— Geo News Urdu (@geonews_urdu) December 5, 2023
عافیہ صدیقی کے وکیل نے کہا کہ ایک امریکی کی حیثیت سے بات کرتے ہوئے میں اس بات پر شرمندہ ہوں جو ہمارے جیل کے نظام نے عافیہ کے ساتھ کیا، میں نے عافیہ کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی سے متعلق رپورٹ بھی جمع کروائی ہے۔
کلائیو اسٹیفورڈ کا کہنا تھا کہ جو سلوک عافیہ کے ساتھ کیا جارہا ہے وہ جنسی بدسلوکی کے لحاظ سے ناقابل بیان ہے، عافیہ نے مجھے تفصیل سے بتایا ہے کہ ان کے ساتھ کس طرح جنسی استحصال کیا گیا، عافیہ کو جو ساری شکایات ہیں وہ ساری انتہائی تشویشناک ہیں اور سب سچ ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت امریکی جیلوں میں 10 ہزار 250 خواتین ہیں، ان تمام خواتین میں سے جس خاتون کے ساتھ سب سے زیادہ برا سلوک کیا گیا وہ عافیہ ہے، اس میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ ایف ایم سی کار سویل میں عافیہ کا ریپ کیا گیا۔
صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جیل کے محافظوں کی جانب سے کم از کم 2 بار لیکن دوسرے قیدیوں کی جانب سے ان گنت بار عافیہ صدیقی کا ریپ کیا گیا۔
صحافی نے پوچھا کہ کیا حکومتِ پاکستان کو معلوم تھا کہ عافیہ صدیقی کا ریپ ہوچکا ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جی، میں نے حکومتِ پاکستان کو عافیہ کے ساتھ ہونے والے ریپ کے بارے میں بتایا ہے اور میں یقینی طور پر انہیں تمام لرزہ خیز تفصیلات سے بھی آگاہ کروں گا، یہ عافیہ صدیقی کی حکومت ہے، عافیہ کی حفاظت کرنا ان کا فرض ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں جو کرسکتا ہوں وہ کر رہا ہوں، میں ایک امریکی ہوں اور عافیہ کے ساتھ جو کچھ ہوا اُس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں لیکن بالآخر یہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے، یہ حکومتِ پاکستان کی ناکامی ہے کہ وہ عافیہ کو واپس نہیں لاپائی۔
ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہم یہاں دیکھ رہے ہیں اس کے مطابق یہ صرف عافیہ کی مدد کے لیے ضروری وسائل استعمال کرنے اور ہر ممکن اقدام اٹھانے میں ناکامی کا نتیجہ ہے، عافیہ کا معامہ اتنا پیچیدہ نہیں ہے، حکومتِ پاکستان کو امریکا کے ساتھ عافیہ کے معاملے کو ترجیح بنانا ہوگا۔
عافیہ صدیقی: امریکہ سے تعلیم یافتہ خاتون جن کا افغانستان پہنچنا آج تک معمہ ہے
امریکہ سے تعلیم یافتہ ڈاکٹر عافیہ مارچ 2003 میں کراچی سے لاپتہ ہو گئی تھیں۔ ان کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو کراچی میں ان کی رہائش گاہ سے قبل تین بچوں سمیت حراست میں لیا گیا تھا۔
تاہم پاکستانی اور امریکی حکام اس کی تردید کرتے آئے ہیں۔
امریکہ نے جولائی 2007 میں ان کی افغانستان سے حراست کو ظاہر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ڈاکٹر عافیہ نے امریکی فوجیوں پر فائرنگ کر کے انھیں قتل کی کوشش کی۔
ایف بی آئی اور نیویارک کے پولیس کمشنر ریمنڈ کیلی کی طرف سے عافیہ صدیقی کے خلاف مقدمے میں جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کو افغانستان میں غزنی کے صوبے سے گرفتار کیا گیا۔
امریکی حکام کے مطابق افغان پولیس کو شیشے کے مرتبانوں اور بوتلوں میں سے کچھ دستاویزات ملی تھیں جن میں بم بنانے کے طریقے درج تھے۔
اس بیان میں کہا گیا ڈاکٹر عافیہ ایک کمرے میں بند تھیں جب ان سے تفتیش کے لیے ایف بی آئی اور امریکی فوجیوں کی ایک ٹیم پہنچی تو انھوں نے پردے کے پیچھے سے ان پر دو گولیاں چلائیں لیکن وہ کسی کو نشانہ نہ بنا سکیں۔
ایک امریکی فوجی کی جوابی فائرنگ اور اس کے بعد کشمکش میں ڈاکٹر عافیہ زخمی ہو گئی تھیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ میں پاکستانی سینیٹرز کے ایک وفد سے ملاقات میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ لائے جانے سے قبل انھیں افغانستان میں بگرام کی امریکی جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
مشاہد حسین سید، جو 2008 میں ہونے والی اس ملاقات میں شامل تھے، نے بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بتایا کہ ان کو اسلام آباد سے اغوا کیا گیا اور ان کو بے ہوشی کے انجکشن لگائے گئے۔
مشاہد حسین سید نے کہا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مطابق جب ان کو ہوش آیا تو وہ بگرام جیل میں قید تھیں۔
عافیہ صدیقی کو 86 سال کی سزا کیوں ہوئی؟
ان پر امریکہ میں مقدمہ چلایا گیا اور سنہ 2010 میں انھیں 86 برس قید کی سزا سنائی گئی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے جج نے کہا تھا کہ امریکی شہریوں پر قاتلانہ حملے کی ترتیب وار سزا 20 سال، امریکی عملداروں اور اہلکاروں پر حملے کی سزا 20 سال، امریکی حکومت اور فوج کے عملداروں اور اہلکاروں پر ہتھیار سے حملے کی سزا 20 سال، متشدد جرم کرنے کے دوران اسلحہ سے فائر کرنے کی سزا عمر قید، امریکی فوج اور حکومت کے ہر اہلکار اور عملدار پر حملے کی ہر ایک سزا آٹھ سال یعنی 24 سال بنتی ہے۔
برطانوی اخبار دی گارڈین کی جانب سے خلیج گوانتانامو کے حراستی مرکز کی شائع کردہ خفیہ دستاویزات (گوانتانامو فائلز) کے مطابق پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ میں دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے کی کوشش اور القاعدہ کو بائیولوجیکل ہتھیار بنا کر دینے کی پیشکش کی تھی۔
یہ الزامات امریکی انٹیلیجنس کے تجزیے اور القاعدہ کے کم از کم تین سینیئر ارکان سے براہ راست تفتیش کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات کے نتیجے میں لگائے گئے، جن میں امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے منصوبہ ساز خالد شیخ محمد بھی شامل تھے۔
تاہم ان معلومات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جا سکتی اور اس بات کا امکان ہے کہ ملزمان سے یہ بیانات تشدد کے ذریعے حاصل کیے گئے ہوں گے۔
خالد شیخ محمد کو جنھیں انٹیلیجنس حلقوں میں ’کے ایس ایم‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے کو دوران حراست 183 مرتبہ واٹر بورڈنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ وہ القاعدہ کے سرکردہ رہنما خالد شیخ محمد کے بھتیجے کی اہلیہ ہیں۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق گوانتانامو کی فائلوں سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ڈاکٹر عافیہ دو ہزار دو اور تین کے دوران کراچی میں القاعدہ کے سیل میں شامل تھیں اور اس سیل کے ارکان نے گیارہ ستمبر کے حملوں کی کامیابی کے بعد امریکہ، لندن کے ہیتھرو ائرپورٹ اور پاکستان میں مزید حملوں کے منصوبے بنائے۔
دستاویزات کے مطابق اس سیل کے ارکان نے ٹیکسٹائل اشیا برآمد کرنے کی آڑ میں امریکہ میں دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ خالد شیخ محمد کے بیان کے مطابق اس دھماکہ خیز مواد سے امریکہ میں اہم معاشی اہداف کو نشانہ بنانا تھا۔ یہ آپریشن امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار کے ذریعے انجام دیا جانا تھا جو ایک پاکستانی بزنس مین سیف اللہ پراچہ چلاتے تھے۔
گوانتانامو کے حراستی مرکز میں سیف اللہ پراچہ کی فائل کے مطابق اس منصوبے میں ان کی ذمہ داری کرائے کے گھر حاصل کرنا اور انتظامی تعاون فراہم کرنا تھی۔
واضح رہے کہ سیف اللہ پراچہ کو حال ہی میں 20 سال قید کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر عافیہ پر الزام تھا کہ اسی آپریشن کے سلسلے میں ماجد خان نامی شخص کی امریکی سفری دستاویزات حاصل کرنے میں مدد کرنے کے لیے وہ 2003 میں امریکہ گئیں۔ ماجد خان کو امریکہ میں پیٹرول پمپز اور پانی صاف کرنے والی تنصیبات پر بموں سے حملے کرنے تھے۔
ماجد خان کو بھی رواں سال امریکہ نے رہا کر دیا ہے۔
تاہم خفیہ دستاویزات کے مطابق ماجد خان نے دوران حراست بیان دیا کہ انھوں نے اپنے امریکہ سفر کو ممکن بنانے کے لیے ڈاکٹر عافیہ کو رقم، تصاویر اور امریکہ میں پناہ کی درخواست کے لیے فارم بھر کر دیا۔
ڈاکٹر عافیہ نے امریکہ جانے کے بعد وہاں ماجد خان کے نام سے ایک پوسٹ آفس بکس کھولا جس کے لیے انھوں نے اپنے ڈرائیور کا ڈرائیونگ لائسنس استعمال کیا۔
تاہم یہ منصوبہ ناکام ہو گیا اور ماجد خان کو پاکستان میں گرفتار کرنے کے بعد گوانتانامو کے حراستی مرکز منتقل کر دیا گیا۔