لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایک ہلتی ہوئی موبائل فون ویڈیو میں ایک خاتون کی آواز سے گھبراہٹ عیاں ہے۔ یہ ویڈیو دروازے میں موجود ایک سوراخ سے بنائی گئی ہے جس میں موبائل کیمرہ بار بار فوکس میں آ جا رہا ہے۔
اس گھر کے باہر پاکستانی پولیس موجود ہے اور غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے دستاویزات دیکھ رہی ہے۔ افسران متعدد دستاویزات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور ان کے اردگرد متعدد افراد منتظر کھڑے ہیں۔
اس کے بعد ویڈیو بند ہو جاتی ہے۔
پاکستان بھر میں پولیس کی جانب سے ایسے غیر اعلانیہ چھاپے تیزی سے معمول بنتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا کریک ڈاؤن ہے جو ان ہزاروں غیر ملکیوں کے خلاف کیا جا رہا ہے جن کے پاس پاکستان میں رہنے کا قانونی حق نہیں۔
ان متاثرہ افراد میں سے ایک بڑی تعداد افغانوں کی ہے جنھیں ملک سے ڈی پورٹ ہونے کا خدشہ لاحق ہے۔ طالبان کی جانب سے سنہ 2021 میں کابل پر قبضہ کرنے کے بعد سے اکثر افغان واپس جانے سے خائف ہیں۔
ان میں صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن، ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے اراکین، ایسے کانٹریکٹرز جنھوں نے امریکی اتحادی افواج یا افغان فوج کے ساتھ کام کیا اور وہ خواتین اور لڑکیاں جو اب افغانستان میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں۔
تاہم جس چھاپے کی ویڈیو بی بی سی کے ساتھ ایک متاثرہ خاندان نے شیئر کی ہے وہ دراصل پاکستان میں ایک ایسے علاقے میں مقیم ہیں، جہاں ہزارہ برادری رہتی ہے۔
ہزارہ برادری کی اکثریت شیعہ مسلمان ہیں جنھیں سنی انتہا پسندوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
ان فرقوں میں متعدد اختلافات بھی پائے جاتے ہیں جن کے باعث دونوں برادریوں کے درمیان موجود فرقہ وارانہ تقسیم ان کے درمیان خلیج بڑھا دیتی ہے۔
افغانستان میں نشانہ بنائے جانے کے خوف سے اکثر ہزارہ سنہ2021 کے بعد سے پاکستان منتقل ہو گئے تھے۔
افغانستان سے سنہ 2022 کے آغاز میں پاکستان آنے والی سترہ سالہ ہزارہ شاکیبہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’طالبان کے اقتدار میں زندگی قید کی طرح تھی۔ وہ ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے تھے، وہ ہمیں کافر کہتے تھے۔ ہمیں کبھی ان کے ساتھ تحفظ کا احساس نہیں ہوا۔‘
شاکیبہ نے اپنے علاقے میں پولیس کے متعدد چھاپے دیکھے ہیں لیکن تاحال ان کے گھر کوئی نہیں آیا۔
انھیں ڈر ہے کہ انھیں یا ان کے خاندان کو چار دیواری سے نکلنے کی صورت میں اٹھا لیا جائے گا، وہ اپنے خاندان سمیت چھپی ہوئی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے چہرے منفرد نظر آتے ہیں۔ ہم پاکستانی کپڑے بھی پہنیں تو ہماری پہچان آسانی سے ہو جاتی ہے۔ وہ ہمیں پہچان کر شور مچاتے ہیں ’افغان، افغان!‘
ہزارہ برادری کے آباؤاجداد منگولیا اور وسطی ایشیا سے تھے اور ان کے چہرے کے نقش انھیں پاکستانی اور افغان آبادی سے بظاہر منفرد بناتے ہیں۔
اس تحریر میں دیگر افغانوں کی طرح شکیبہ کا نام بھی ان کی شناخت چھپانے کے لیے تبدیل کیا گیا ہے۔
وہ 17 لاکھ غیر ملکی جنھیں پاکستان کی جانب سے غیر قانونی قرار دیا گیا ہے ان میں افغان اکثریت میں ہیں۔
پاکستان کی جانب سے یہ فیصلہ سرحد پار سے ہونے والے حملوں میں اضافے کے بعد دونوں ملکوں میں تناؤ میں اضافے کے بعد سامنے آیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے اس کی ذمہ داری افغانستان میں موجود عسکریت پسندوں پر عائد کی گئی تاہم کابل میں طالبان حکومت اس دعوے کی تردید کرتی ہے۔
گذشتہ دو ماہ کے دوران چار لاکھ سے زیادہ افراد پاکستان سے افغانستان منتقل ہوئے ہیں۔
ان کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے کیونکہ ان میں سے اکثر کیمپوں میں رہ رہے ہیں جبکہ باقیوں نے افغانستان میں دوبارہ زندگی کا آغاز کر دیا ہے۔ موسمِ سرما کی آمد پر وہ اپنے ساتھ افغانستان بہت کم اشیا لے کر گئے ہیں۔
سنہ 2021 کے بعد سے پاکستان آنے والے افغان شہریوں کو خاص طور پر یہاں سرکاری دستاویزات حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے، ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو پناہ گزین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے نئی پالیسی کے اعلان کے بعد سے ان کے پاس دو ہی راستے تھے، یا تو ملک چھوڑ جائیں اور افغانستان واپس جا کر دوبارہ زندگی شروع کیں یا یہیں رکیں اور پولیس کے چھاپے کا خطرہ مول لیں۔
شکیبہ کے لیے اس بارے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارا لیے اس میں فیصلہ کرنے والی کوئی بات نہیں تھی۔‘ وہ اور ان کا خاندان افغانستان میں متعدد دھمکیاں ملنے کے بعد پاکستان پہنچا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ ہم تب تک یہاں رہیں جب تک یہ ہمیں زبردستی نکال نہیں دیتے۔ یہ ہزارہ برادری کے لیے موزوں جگہ نہیں لیکن بہتر ہے کہ ہم یہاں رہیں اور اپنی قسمت آزمائیں۔‘
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے فدا علی کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں انتہا پسندی ہے لیکن افغانستان میں صورتحال اگلے درجے کی ہے۔‘
فدا علی افغانستان میں ایک استاد تھے اور وہ دو برس پہلے طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد پاکستان آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب حکومت کا خاتمہ ہوا تو اس کے ساتھ ایسے کئی اداروں کا بھی خاتمہ ہوا جن کے لیے ہم کام کر رہے تھے۔ افغانستان چھوڑنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اقلیت میں ہونے کے باعث ہم ان کا پہلا ہدف ہیں۔‘
واپسی کا خوف
ہزارہ برادری کے لیے پاکستان ہمیشہ سے ہی افغانستان کے مقابلے میں ایک محفوظ متبادل نہیں تھا لیکن جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو اکثر ہزارہ نے سرحد پار کرنے پر ہی اکتفا کیا۔
وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن جلیلا حیدر کا کہنا ہے کہ ’ہزارہ برادری کو پاکستان میں بھی مظالم کا سامنا رہا ہے لیکن اکثر افراد کا خیال ہے کہ اگر وہ افغانستان واپس جاتے ہیں تو ایسا کرنا واپس ذبح خانے میں جانے کے مترادف ہو گا۔
وہ ایک پاکستانی ہزارہ ہیں جو ایسے افراد کو گذشتہ چند ہفتوں کے دوران قانونی معاونت فراہم کر رہی ہیں جنھیں یا تو گرفتار کیا گیا یا پھر ڈی پورٹ کرنے کی دھمکی دی گئی۔
وہ بتاتی ہیں کہ حالیہ واقعات کے باعث ہزارہ برادری اور طالبان کے درمیان اعتماد کی شدید کمی ہے۔
شکیبہ کہتی ہیں کہ اس کے باعث ان میں خوف موجود ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم طالبان سے خائف تھے کہ وہ ہمیں قتل کر دیں گے جیسے انھوں نے پہلے کیا تھا۔‘
جب طالبان سنہ 1996 سے 2001 کے درمیان اقتدار میں تھے تو ہزارہ جنگوؤں نے ان کے خلاف لڑائی کی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اس دوران طالبان نے ہزاروں کی تعداد میں ہزارہ ہلاک کیے تھے۔ ادارہ طالبان پر اگست سنہ 1998 میں مزارِ شریف، سنہ 2001 میں یاکاؤلانگ اور مئی سنہ 2000 روباک میں قتلِ عام کرنے کا الزام عائد کرتا ہے جس کے دوران جنگجوؤں اور عام عوام کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا تھا۔
ایک طالبان ترجمان نے کہا کہ یہ سچ نہیں اور یہ اموات ایک مسلح جدوجہد کے بعد ہوئی تھیں اور دونوں اطراف اموات سامنے آئی تھیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس نے ایسے واقعات کو دستاویزی حیثیت دی ہے جن میں ہزارہ برادری کو تشدد اور انھیں قتل کیا جاتا رہا ہے۔ طالبان حکومت ان الزامات کی بھی تردید کرتی ہے۔ ہزارہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ سمیت دیگر انتہا پسند تنظیموں کے نشانے پر بھی رہے ہیں۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ پاکستان کی افغان شہریوں کو موسمِ سرما سے قبل ڈی پورٹ کرنے کے پالیسی ’کابل میں حکومت پر دباؤ بڑھانے کا ایک حربہ ہے۔‘
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم تمام قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افغان پناہ گزینوں جن میں ہزارہ بھی شامل ہیں کو وطن واپسی پر خوش آمدید کہتے ہیں اور ہم انھیں یقین دلاتے ہیں کہ ان کی جان، مال، زمین اور عزت کی حفاظت ہمارے ذمے ہے اور وہ افغانستان میں معمول کے مطابق زندگی گزار سکتے ہیں۔‘
پاکستان کے نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ وعدہ کر چکے ہیں کہ ایسے افراد جنھیں خطرات لاحق ہیں انھیں واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ انھوں نے عرب نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’ایسے افراد کا ڈیٹا بیس وزارتِ داخلہ کے پاس ہے۔‘
ایسے افراد کی شناخت کیسے کی جاتی ہے یہ واضح نہیں اور وزارتِ داخلہ کی جانب سے بی بی سی کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ اس قسم کی کوئی فہرست پبلک بھی نہیں کی گئی۔
پاکستان کے کمشنر برائے افغان پناہ گزین عباس خان نے کہا ہے کہ ایسی خبروں میں کوئی صداقت نہیں کہ ہزارہ برادری کو پولیس کی جانب سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔
تاہم جلیلہ حیدر کہتی ہیں کہ انھوں نے متعدد افراد کو روپوش ہوتے دیکھا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’قصبوں میں میں نے متعدد دکانیں اور کاروبار جو ہزارہ اور دیگر افغان چلا رہے تھے انھیں بند ہوتے دیکھا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اس سے ایک اور انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے یہ لوگ کیسے کھائیں گے۔
’ہزارہ برادری کے لیے کوئی رحم نہیں۔ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ انھیں افغانستان میں نوکریاں یا مواقع مل سکتے ہیں۔ انھیں ایسے کئی چیلنجز کا بھی سامنا ہے جو افغانوں کو درپیش ہوتے ہیں لیکن یہ ان کے ہزارہ ہونے کے باعث زیادہ شدید ہیں۔‘
گذشتہ افغان حکومت میں ہزارہ برادری کو نئے مواقع ملے تھے۔ سنہ 2014 میں انھیں باضابطہ طور پر بطور شہری شناخت مل گئی تھی۔ ان میں سے اکثر نے سول سوسائٹی، حکومت اور فوج میں نمایاں عہدے سنبھالے تھے۔
فدا علی کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں گذشتہ دو دہائیوں کے دوران ہزارہ ان مراحل کی حمایت میں تھے۔ اب اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم پر اتحادی افواج کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی ہمیں بہت زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔‘
تمام ہزارہ جن سے بی بی سی نے بات کی نے ایک ہی طرح کے خوف، اضطراب اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
باقر جو افغان فوج اور حکومت کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اس وقت اپنے خاندان سمیت خاصے محتاط ہیں۔ وہ دو برس قبل پاکستان آئے تھے اور ان کا کہنا ہے کہ واپس جانا ’اپنی زندگی کے ساتھ کھیلنے‘ کے مترادف ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم اپنے ملک واپس نہیں جا سکتے، ہو سکتا ہے موت وہاں ہمارا انتظار کر رہی ہو اور یہاں ہماری آواز کوئی نہیں سنتا، ہمیں سمجھ نہیں آتی ہم کیا کریں۔‘
دستاویزات کی عدم موجودگی، غیریقینی حالات اور پناہ گزینوں کے طور پر پہچان نہ ملنے کے باعث سب ہی یہ بات کرتے ہیں کہ ہم صرف امید اور انتظار ہی کر سکتے ہیں۔
شکیبہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں واقعی نہیں معلوم کہ ہمیں کہاں جانا چاہیے یا کیا کرنا چاہیے۔ ہم نے سب کچھ گنوا دیا۔ میرے جتنے بھی خواب تھے، سب ہی ختم ہو چکے ہیں۔‘