کوئٹہ (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لانگ مارچ کے شرکاء نے کوئٹہ کے ریڈ زون میں رکاوٹوں کے باعث سریاب روڈ پر دھرنا دے دیا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مطالبات منظور نہیں کیے جاتے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر یہ احتجاج صوبے کے ضلع تربت میں 23 نومبر کو بالاچ بلوچ نامی نوجوان کے قتل کے خلاف شروع کیا گیا تھا۔ اس لانگ مارچ سے قبل قریب دو ہفتوں تک مظاہرین کی جانب سے تربت میں احتجاجی دھرنا بھی دیا گیا۔ لانگ مارچ میں خواتین اور بچوں کی ایک کثیر تعداد بھی شامل ہے۔
کوئٹہ تک لانگ مارچ کی وجوہات کیا ہیں؟
بلوچستان میں انسانی حقوق کی کارکن حمیدہ نور کہتی ہیں کہ حکومتی بے حسی اور ماورائے آئین اقدامات نے عوام کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر ہونے والے اس احتجاج کے بنیادی پس منظر پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ ریاستی جبر کب تک برداشت کیا جائے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے اگر پر امن احتجاج کر رہے ہیں تو یہ ان کا آئینی حق ہے۔ حکومتی ادارے قانون سے بالاتر نہیں۔ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل آج بھی بلوچستان میں جاری ہے۔”
حمیدہ نور کا کہنا تھا کہ زیر حراست افرا د کی ہلاکت سے معاشرے کا ہر فرد تشویش کا شکار ہے اس ظلم و جبر سے تنگ آکر لوگ لانگ مارچ پر مجبور ہوئے ہیں۔
ان کے بقول، “گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ شہریوں کی جبری گمشدگی کے واقعات کم ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں۔ عوامی غصہ کس طرح کم ہوسکتا ہے۔ اگر ریاستی ادارے کسی جرم میں لوگوں کو گرفتار کرتے ہیں تو قانونی تقاضوں کے مطابق انہیں عدالتوں میں کیوں پیش نہیں کیا جاتا؟ اس صورتحال کو اگر سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو انتشار مزید پھیل سکتا ہے۔ خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے والے ریاستی اداروں کا بھی بلا تفریق احتساب ہونا چاہیے۔”
انسداد دہشت گردی پولیس کا دعوی
بلوچستان میں انسداد دہشت گردی پولیس (سی ٹی ڈی) نے دعویٰ کیا ہے کہ بالاچ بلوچ کا تعلق مبینہ طور پر کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی سے تھا، جس کی وجہ سے انہیں گزشتہ ماہ 20 نومبر کو تربت سے گرفتار کیا گیا تھا۔
سی ٹی ڈی کے دعوے کے مطابق بالاچ کی ہلاکت بی ایل اے کے ان ارکان کی فائرنگ سے ہوئی تھی، جنہیں گرفتار کرنے کے لیے ان کی ٹیم نے بالاچ کی نشاندہی پر 23 نومبر کو پسنی روڈ پر چھاپہ مارا تھا۔ اس واقعے میں تین دیگر افراد بھی ہلاک ہوئے تھے، جن میں دو کی شناخت عبدالودود اور سیف اللہ کے طور پر کی گئی تھی۔
مقتول بالاچ کے ورثاء نے حکومتی موقف کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ بالاچ کو جبری طور پر لاپتہ کرکے زیر حراست قتل کیا گیا۔ گزشتہ دنوں تربت کے مقامی عدالت نے بالاچ کے لواحقین کی درخواست پر مذکورہ واقعے کا مقدمہ سی ٹی ڈی افسران کے خلاف درج کرنے کا حکم بھی دیا۔
بلوچستان حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے صوبائی سکریٹری عمران گچکی کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے تاہم اطلاعات کے مطابق اس کمیٹی نے اب تک حکومت کو کیس کی تحقیقات سے متعلق کوئی رپورٹ پیش نہیں کی ہے۔
لاپتہ افراد کے اہل خانہ کیا چاہتے ہیں؟
غیر سرکاری تنظیموں کے اعدادوشمار کے مطابق بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان افراد میں گزشتہ دور حکومت میں بلوچ قوم پرست جماعتوں کے احتجاج کے بعد سینکڑوں افراد کی بازیابی ممکن ہوئی تھی۔
لانگ مارچ میں تربت کے علاقے ہوشاب سے تعلق رکھنے والے 40 سالہ طفیل بلوچ بھی شریک ہیں۔ طفیل کہتے ہیں کہ بلوچستان میں بلوچ سیاسی اور سماجی کارکنوں کی جبری گمشدگی کے واقعات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”ریاستی جبر کے خلاف بلوچ قوم اب انصاف کے لیے آواز بھی بلند نہیں کر سکتی۔ ہمارے اس پر امن احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے راستے میں ہر شہر میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ بلوچ نوجوانوں کو مسلسل لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے لواحقین کو کوئی انصاف نہیں مل رہا۔ تربت میں قتل کا حالیہ واقعہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی موجودہ صورتحال کا عکاس ہے۔”
طفیل کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی سزا دی جا رہی ہے مگر اس ناانصافی پر صوبے کے عوام خاموش نہیں رہیں گے۔
لانگ مارچ کے شرکاء کو ریڈ زون میں داخلے سے کیوں روکا گیا؟
بلوچستان کے نگران وزیراطلاعات جان اچکزئی نے دعویٰ کیا ہے کہ کوئٹہ کے ریڈ زون میں دہشت گردی کا خطرہ ہے اسی لیے لانگ مارچ کے شرکاء کو وہاں داخلے سے روکا گیا ہے۔ کوئٹہ میں نیوز بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا، ”تربت لانگ مارچ کے شرکاء کے اکثر مطالبات حکومت پہلے ہی مان چکی ہے۔ جن 4 سی ٹی ڈی اہلکاروں پر تربت واقعے کا الزام ہے ان کو معطل کر دیا گیا ہے۔ سریاب روڈ پر دھرنا مظاہرین کے ساتھ مقامی انتظامیہ نے بھی مذاکرات کیے ہیں۔”
یاد رہے کہ سابقہ دور حکومت میں پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے مرکزی حکومت کو جو 6 نکات پیش کیے تھے ان میں بھی لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ سرفہرست تھا۔
مظاہرین سے حکومتی مذاکرات تاحال ڈیڈ لاک کا شکار
لاپتہ بلوچ افراد کے لواحقین اور مظاہرین کے ساتھ اب تک ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کی جانب سے دو بار مذاکرات کیے گئے ہیں۔ مظاہرین نے ریڈ زون میں داخل ہونے کے لیے رکاوٹیں دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جس پر حکومت تیار نہیں۔
احتجاج میں شریک تربت کے رہائشی جہازیب بلوچ کہتے ہیں کہ لانگ مارچ کے شرکاء کو بلاوجہ شہر کے مرکزی حصے میں داخلے سے روکا جا رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “حکومتی نمائندے اپنے روایتی فرضی بیانات دیتے ہوئے ہم پر احتجاج ختم کرنے کے لیے زور ڈال رہے ہیں۔ تھریٹ کا کا کوئی ایشو نہیں۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ہمیشہ دعوے کیے جاتے رہے ہیں لیکن ان واقعات میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی ادارے خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔”
جہانزیب بلوچ کا کہنا تھا کہ دھرنا مظاہرین کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تواس احتجاج کا دائرہ کار ملک بھر تک پھیلا دیا جائے گا۔
10دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر دارالحکومت اسلام آباد میں ایک سیمینار کا بھی انعقاد کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے کثیر تعداد میں شرکت کی تھی۔ سیمینار میں مقررین نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور لاپتہ افراد کی عدم بازیابی پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔